بھا رتی نو جو انو ں میں خو دکشی کا رجحا ن بڑھ گیا
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) ایک بین الاقوامی مطالعے کے مطابق بھارت میں ہر سال تقریبا ایک لاکھ ستاسی ہزار افراد خودکشی سے موت کا شکار ہوتے ہیں جن میں اکثریت نوجوان لوگوں کی ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیاہے کہ اگر حکومت نے خود کشیاں روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات نہیں کیے تو یہ ملک میں اموات کا سب سے بڑا سبب بن جائے گی۔امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے زیر اہتمام کیے گئے ایک ملک گیر مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ 2010 میں بھارت میں ایک لاکھ ستاسی ہزار افراد خودکشی سے موت کا شکار ہوئے۔مطالعے سے منسلک سکول آف پبلک ہیلتھ چنڈی گڑھ کے پروفیسر جے ایس ٹھاکر کہتے ہیں کہ خودکشی کرنے والوں کی اکثریت 15 سے 29 برس کے نوجوان لوگوں کی ہے۔برطانیہ کے طبی جریدے ’لینسیٹ‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے خودکشی کرنے والے چالیس فیصد افراد کا تعلق بھارت کی چار جنوبی ریاستوں سے ہے۔لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپکل میڈیسین کے ڈاکٹر وکرم پٹیل کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان ریاستوں میں خودکشی کی اونچی شرح کا گہرائی سے ابھی تک کوئی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے لیکن ابتدائی اندازوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوان تعلیم یافتہ لوگوں میں مایوسی اور ناکامی خود کشی کا ایک بڑا سبب ہے۔ڈاکٹر جے ایس ٹھاکرمطالعے کے مطابق دیہی اور شہری علاقوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں خودکشی کرنے والوں میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایک اہم پہلو یہ ہے کہ خودکشی کرنے والوں میں صرف کسان ہی نہیں دوسرے طبقے کے بھی لوگ بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر پٹیل کہتے ہیں کہ ’ کسان تو ہیں ہی خطرے والے گروپ میں لیکن خود کشی کرنے والوں میں ان لوگوں کی تعداد کسانوں سے زیادہ ہے جو تعلیم یافتہ ہیں اور جو بے روزگار ہیں یا جنہیں تعلقات میں دشواریوں کا سامنا ہے۔‘ڈاکٹر ملہوترا کا کہنا ہے کہ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب ایسے شخص کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس شخص کے منفی خیالات اور موت کے رجحان کو بدلا جا سکے۔ بازار میں بہت سی دوائیں بھی موجود ہیں جو ذہنی بیماریوں کا موثر علاج کرتی ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت میں خودکشی کی صورتحال اتنی گمبھیر ہونے کے باوجود ملک گیر سطح پر ابھی تک اس کے اسباب جاننے اور اسے روکنے کے منظم اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ چین اور سری لنکا جیسے ممالک کے تجربات سے بھارت میں بھی خودکشیوں کے واقعات میں خاصی کمی کی جا سکتی ہے۔