مقررہ وقت میں فیصلے سنانے کا سپریم کورٹ کا حکم نیا نہیں ،ضابطہ دیوانی اور عدالتی نظائر میں معیاد طے شدہ ہے
تجزیہ -:سعید چودھری
جمعہ 26جون کو ایک بڑے میڈیا گروپ کے اردو اور انگریزی زبان کے اخبارات میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے حوالے سے خبر شائع ہوئی جس میں اسے ملک کی تاریخ کا تاریخی فیصلہ قرار دیا گیا ہے ،خبر کے مطابق اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے ٹرائل مکمل ہونے کے بعد سول کورٹس کو 30دن ، ڈسٹرکٹ کورٹس کو 45دن اور ہائی کورٹس کو90دن میں فیصلہ سنانے کا پابندکیا ہے ۔یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے 3رکنی بنچ نے 21اپریل 2015کو جاری کیا تھا جو 65دن بعد 26جون 2015کو اس انداز سے شائع کیا گیا جیسے کہ یہ تازہ ترین حکم ہو ۔بلا شبہ مقدمات کی سماعت کی تکمیل کے بعد محفوظ کئے گئے فیصلوں کے اجراءکے حوالے سے یہ سپریم کورٹ کا ایک اہم حکم ہے تاہم اس نوعیت کاپہلا حکم ہونے کے لحاظ سے یہ تاریخی فیصلہ نہیں ہے ۔نہ صرف ایسے احکامات متعدد بار جاری ہوچکے ہیں بلکہ ضابطہ دیوانی میں بھی معیادکی یہ پابندیاں پہلے سے موجود ہیں ۔یہ سپریم کورٹ کا ایسا فیصلہ ضرور ہے جس میں تاریخ کو دہرایا گیا ہے تاہم ہائی کورٹس کے لئے محفوظ کئے گئے فیصلے سنانے کی معیاد میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے اضافہ ہی کیا ہے ۔
روزنامہ پاکستان 23نومبر2007ءکو اس ایشو پر تفصیلی تجزیہ شائع کرچکا ہے ۔سپریم کورٹ کے ایسے متعدد احکامات موجود ہیں کہ اگر ہائی کورٹ کسی مقدمہ میں اپنا فیصلہ محفوظ کرلیتی ہے تو 3ماہ میں اسے فیصلہ سنا دینا چاہیے اگر 3ماہ سے زیادہ مدت گزر جائے تو متعلقہ بنچ کو مقدمہ کی دوبارہ سماعت کرنی چاہیے اس سلسلے میں افتخار الدین حیدر گردیزی بنام سنٹرل بینک آف انڈیا کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے 1996ءمیں دیئے گئے فیصلے کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ،شبیر احمد خان کیس بھی اس کی ایک مثال ہے ۔سپریم کورٹ نے اپنے 21اپریل 2015کے فیصلے میں اسی عدالتی نظیر کا اعادہ کیا ہے اور ہائی کورٹس کی طرف سے محفوظ کئے گئے فیصلوں کو 90روز کے اندر سنانے کو ایک طے شدہ اصول قرار دیا ہے اوریہ بھی قرار دیا ہے کہ اگر ہائی کورٹس کے ججز 90روز کے اندر فیصلہ نہ سنا سکیں تو انہیں معقول وجوہات بیان کرکے متعلقہ کیس کی دوبارہ سماعت کرنی چاہیے تاہم ہائی کورٹ کے ججوں کی حیثیت کے تناظر میں ان سے یہ توقع نہیں رکھی جانی چاہیے کہ وہ معمول کے طور پر ایسے مقدمات کی دوبارہ سماعت شروع کردیں ۔محض 90روز کے اندر فیصلہ نہ سنائے جانے کی بناءپر ہائی کورٹ کے فیصلوں کو غیر موثرقرار نہیں دیا جاسکتا اگرچہ اس پر ناک بھوںچڑائی جاسکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہائی کورٹ کے جج غیر معینہ مدت تک فیصلے محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔
سپریم کور ٹ نے 21اپریل2015ءکے اپنے اس فیصلے میں ہائی کورٹس کے لئے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنانے کے لئے 120روز کو مناسب وقت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 120روز کے اندر فیصلہ آجانا چاہیے (اس امر کا مذکورہ خبر میں ذکر نہیں ہے )،دوسرے لفظوں میں ماضی کی عدالتی نظائر اگر ہائی کورٹس کو 90روز میں فیصلہ سنانے کی پابند کرتی ہیں تو عدالت عظمیٰ کے تازہ ترین فیصلے نے ہائی کورٹس کے ججوں کو فیصلہ سنانے کے لئے مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی ہے ۔جہاں تک سول کورٹس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ سماعت مکمل ہونے کے بعد 30دن کے اندر فیصلہ سنائیں گی تو یہ بھی کوئی نیا حکم نہیں ہے اس حوالے سے متعدد عدالتی نظائر موجود ہیں حتی کہ ضابطہ دیوانی میں بھی اس حوالے سے قدغن موجود ہے ۔ضابطہ دیوانی کے آرڈر 20رول (1)2میں واضح کیا گیا ہے کہ جج کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد کھلی عدالت میں اپنا فیصلہ سنائے گا یا پھر وہ اپنا فیصلہ محفوظ رکھتاہے تو اسے آئندہ 30روز کے اندر سنایا جانا ضروری ہے ۔سول عدالتوں کے خلاف ڈسٹرکٹ کورٹ میں جو اپیلیں جاتی ہیں ان کے حوالے سے بھی ضابطہ دیوانی محفوظ کیا گیا فیصلہ معقول مدت کے اندر سنائے جانے کامتقاضی ہے (آرڈر 41،رول 30)۔اس حوالے سے بھی عمومی طور پر ڈسٹرکٹ کورٹس کی طرف سے 45روز میں فیصلہ سنائے جانے کی روایت موجود ہے ۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ضابطہ دیوانی کے آرڈر 20رول (1)2کے تناظر میں 30روز میں 15اضافی ایام شامل کئے ہیں کہ ڈسٹرکٹ ججز کو سیشن ججز کے طور پر بھی کام کرنا ہوتا ہے یوں ڈسٹرکٹ ججز کے لئے سول مقدمات کی اپیلوں کی سماعت کی تکمیل کے بعدفیصلہ سنانے کے لئے 45روز کی معیاد مقرر کی گئی ہے ۔21اپریل 2015کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اس بناءپر سراہا جانا چاہیے کہ اس سے متعلقہ عدالتی نظائر اور رولز کونئی تازگی میسر آئی ہے ۔