یورپ میں مہاجرین کو عیسا ئی بنانے کا مذموم منصوبہ
امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ جیسے متعصّب سیاست دانوں کی جانب سے اسلام دشمنی پر بیانات آنا کوئی نئی بات نہیں، لیکن کیتھو لک عیسائیت کے عالمی رہنما کے قریبی ساتھی کی طرف سے تمام مسلمانوں کوعیسائی بنانے کے عزم کا اظہار قدرے انوکھی اور انتہائی افسوسناک بات ہے ۔نیوز سائٹ کیتھو لک ہیر لڈ کے مطابق کارڈینٹل کرٹ کوش پوپ فرانسس کے سینئر ترین ساتھیوں میں سے ایک ہیں ‘ انہوں نے یہ مذموم بیان کیمرج یونیورسٹی کے وولف انسٹی ٹیوٹ میں منعقد ہونے والی بین المذاہب کانفرنس میں دیا ۔ ان کا کہنا تھا ہم غیر عیسائیوں کو عیسا ئی بنانے کا مشن رکھتے ہیں ۔ہمیں سوائے یہودیوں کے باقی سب کو عیسائی بنانا ہے۔ہم تین ابراہیمی مذاہب کی بات کرسکتے ہیں ‘لیکن ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ یہودیت،عیسائیت اور اسلام میں ابراہیمی نظریات بالکل مختلف ہیں ۔اس لحاظ سے ہم یہودیت کے ساتھ منفرد تعلق رکھتے ہیں، جو ہم اسلا م کے ساتھ نہیں رکھتے۔ کارڈنیل کرٹ کوش کا مزید کہناتھا کہ عیسائیت اور یہودیت کا خاص تعلق ہے اور عیسائی مذہب کے ما ننے والوں کے لئے یہودیت ماں کا درجہ رکھتی ہے۔انہوں نے یہودیت سے گہری محبت کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کے خلاف زہر اگلنا جاری رکھا اور بار بار اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا تمام مسلمانوں کو عیسائی بنانا عیسائیت کے لئے ایک اہم مشن کی حیثیت رکھتا ہے۔
آج کل یورپی ممالک کی جانب ہجرت کرنے والے مہاجر ین کے بارے میں خبریں آ رہی ہیں کہ انہیں عیسائی بنایا جارہا ہے جس پر مسلم دنیا کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس طرح یورپ میں ہزاروں تارکین وطن کو عیسائیت میں تبدیل کیا جارہاہے۔اس رجحان میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے مہاجرین کی زیا دہ تعداد ایرانی،افغانی اور پاکستانی مسلمان اور دیگر کئی ممالک کے مہاجرین پرمشتمل ہے، جنہوں نے سیا سی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔اگر چہ اعداد وشمار تو معلوم نہیں، لیکن مختلف ذرائع ابلا غ سے ملنے والی اطاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہے ۔
مسلم ممالک کے سربراہوں کوان مذموم حرکتوں کا نوٹس لینا چاہئے اور انہیں اس پر اپنے اپنے ممالک کے مذہبی رہنماؤں سے بھی مشاورت کرنی چاہئے کہ مہاجرت کے عذاب کا شکار لوگ اپنا مذہب تبدیل نہ کر سکیں اگر اس سلسلے کو روکا نہ گیا تو اس کے نتائج خوشگوار نہیں نکلیں گے ۔اللہ تعالیٰ نے انتہائی واضح الفاظ میں قرآن پا ک سورت المائدہ آیت نمبر15 میں فرمایا ہے ’’ اے لوگو جو ایمان لا ئے ہو،یہودیو ں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بنا تا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں سے ہے ‘یقیناًاللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔
ا س طرح سورۃ البقرا آیت نمبر12 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے،جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دو راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگر اس علم کے بعد جو تمہارے پا س آ چکا ہے، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست مدد گار تمہارے لئے نہیں ہے ۔
یہ کتاب ہدایت تمام بنی نوع انسان کے لئے ’’ منشورِ انسانیت ہے‘‘ اس میں اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے مشترکہ دشمن ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمودات کی روشنی میں رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ( جس نے کسی دوسری اقوام سے مشابہت اختیار کی پس وہ انہی میں سے ہے ) اگر فرمودات اِلٰہی اور حدیث مبارکہ پر غور کیا جائے اور اپنے گریبان میں جھانکا جائے تو ہمیں یہ آواز آئے گی کہ ہم فرموداتِ الٰہی کی خلا ف ورزیاں کر رہے ہیں اور اللہ کی رحمتوں کے طالب بھی ہیں ۔کیا ہم یہودیوں اور عیسا ئیوں کے طور طریقے پر نہیں چل رہے،کیا وہ یعنی یہودی اور عیسائی آج دُنیا بھر میں مسلمانوں کے مشترکہ دشمن نہیں، اور کیا ہم میں سے جس نے بھی یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق بنایا ہے،ان کا کیا حشر ہوا ہے، کیا ہم اللہ کے غیظ و غضب کو دعوت نہیں دے ر ہے ہم نے یہودیوں اور عیسائیوں کے طور طریقوں پر چل کر دیکھ لیا، مگر وہ کسی بھی مسلمان ملک کے ساتھ دوستی کے خواہاں نہیں اور نہ صدقِ دل سے مدد کر تے ہیں ان تمام سوالوں کے جوا ب نفی میں ملیں گے ۔عیسائیوں اور یہودیوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کے ساتھ روابط رکھے ہیں ۔
یہ جنگ تو چودہ سو سال سے جاری ہے ۔مگر اس کا صحیح اندازہ برِ صغیر کے مسلمانوں کو اس وقت ہوا جب شاطر انگریزوں نے برِ صغیر پر حکومت شروع کی ‘ اسی دوران علامہ اقبال جیسے مفکر اور دانشور بھی پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن پاک میں مسلمانوں کو دی گئی ہدایات اور ارشادات کو شاعری کے ذریعہ بر صغیر کے مسلمانوں کو ان کی اپنی زبان فارسی اور اردو میں قرآن پاک کی تشریح کو شاعری میں پیش کر کے رہنمائی کی تاکہ وہ باآسانی سمجھ سکیں۔ مسلمانوں کو اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے فر مودات کو ذہن نشین رکھیں‘ علامہ اقبال ؒ اور قائداعظمؒ کے احکامات پر چلیں ‘یہی ایک طریقہ ہے، جس سے ہم اپنے جداگانہ وجود اور اپنی پہچان اور اپنا تشخص قائم رکھ سکتے ہیں کیونکہ قوموں کا تشخص ہی خود اعتمادی اور خود انحصاری کی علامت ہے اور نظر یاتی و جغرافیائی حدود کی ضمات بھی قومی تشخص ہی مہیا کر تا ہے جیسا کہ قرآن حکیم اور اُسوہ حسنہ کی روشنی میں علا مہ اقبال ؒ نے فر مایا تھا
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اس شعر کی تشریح تمام مسلمان مفکرین اور دانشوروں نے یہی کی ہے کہ یہود و نصاریٰ اور ہندوؤں کو اپنا رول ماڈل نہ بنایا جائے،ایسے مسلمانوں کو دیکھ کر تو یہودی بھی شرما جاتے ہیں، جن کی شکل و صورت ہم نے بنا لی ہے مسلم دنیا کے تمام سر براہوں کو کھلے دل کیساتھ اپنے ممالک سے ہجرت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر توجہ دلانے کی ضرورت ہے کارڈینل کرٹ کوش جیسے کئی آئے اور اپنے مذموم مقا صدمیں ناکام ہوئے اللہ تعالیٰ نے رحمت العالمین ؐ کو جو کچھ بتادیا ہے،وہی مسلم دُنیا کے لئے زندہ رہنے کا منشو ر ہے اور اگر موجودہ مسلم ممالک کے سربراہوں نے کبوتر کی طر ح آنکھیں بند کر رکھیں تو پھر اپنے انجام کے لئے بھی تیار رہیں ۔شہنشا ہ رضاشاہ پہلوی ‘صدام حسین ‘کرنل معمر قذافی اور اس طرح کے کئی سربراہان مملکت کے انجام اور تاریخ سے ہمیں سبق سیکھ لینا چاہئے ۔ہوناوہی ہے جو اللہ چاہتا ہے اور جو اس کی منشا ہے،اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا ‘یہ ہمارا عقیدہ اور ایمان ہونا چاہئے یہی صحیح راستہ اور صراطِ مستقیم ہے۔