بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ آخری قسط

بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ آخری قسط
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ آخری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سلیمان خان کرلانی امرائے شیر شاہ میں تھا اور شیر شاہ کے وقت سے صوبہ بہار کی حکومت پر مامور تھا۔ شیر شاہ کے بعد سلیم شاہ کے عہدمیں بھی یہ اپنے عہدہ و منصب پر قائم رہا۔ جب سوری خاندان کی سلطنت کو زوال آیا۔ اور بنگالہ میں محمد خان سور کے خاندان کا خاتمہ ہوا تو اس وقت سلیمان خان نے اپنے بھائی تاج خان کو بنگالہ بھیج کر یہاں بھی دخل جمایا۔ تاج خان کے مرنے پر ۶۷۰ میں سلیمان خان بلا شرکت بہار کے علاوہ بنگالے کا بھی بادشاہ ہوگیا۔ سلیمان شاہ کرلانی نے ۹۸۰ھ میں انتقال کیا۔ یہ اپنے زمانہ میں نہایت بیدار مغز اور ہر دل عزیز حکمران تھا۔ اس نے صوبہ بہار و بنگالہ و اڑیسہ میں خود مختارانہ حکومت کی۔ علماء اور مشائخ کا بھی قدر دان تھا۔ اس کی مجلسوں میں سو ڈیڑھ مشاہیر علماء و مشائخ موجود رہتے تھے اور یہ اکثر ان کی صحبتوں میں ساری رات ذکر و عبادت میں گزار دیتا تھا۔‘‘
مصنف تاریخ اڑیسہ و بہار فوق بلگرامی لکھتا ہے:

بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’۱۱۹۷ء سے صوبہ بہار، فتوحات اسلامی کی حدود میں داخل ہوگیا اور تاریخوں کے ثبوت سے صوبہ بہار کی فتح کا سہرا بختیار خلجی(یا غلجی) کے سر باندھا گیا جو قطب الدین کی طرف سے ان ممالک کی فتح کرنے پر تعینات تھا۔ ۱۲۰۳ء میں اس نے بنگال پر چڑھائی کی اور لچھمی سین بھاگ گیا اور بہار کی طرح بنگال بھی بلا مزاحمت اس کے قبضہ میں آگیا۔ بہرحال بختیار خلجی اوّل اسلامی حکمران ہے۔ جس نے صوبہ جات متحدہ و بہار پر حکومت کی ہے۔ اس نے گورکے قدیم پایہ تخت کو اپنا دارالسلطنت بنایا اور یہیں سے دونوں صوبوں کا انتظام کرنے لگا۔ بنگال و بہار کو فتح کرکے اس نے کوچ بہار کے علاقہ کو بھی اپنے قبضہ میں کر لیا اور علی میخ نامی ایک(افغان) افسرکو وہاں اپنا نائب مقرر کیا اور اس کے تین نائبین بھی مقررکئے یعنی اعزالدین شیروانی کو عامل بار یسال اور علی مروان خان خلجی (یا غلجی) کو حاکم دیو کت اور حسام الدین عوض غوری کو حاکم بہار مقرر کیا۔ اس کے آگے اس نے بوٹان، تبت اور چین وغیرہ چڑھائی کی مگر اس میں اس کو کامیابی نہیں ہوئی۔ ۱۲۰۶ھ میں وہاں سے واپس آکر بختیار خلجی گورمیں مر گیا اور بہار میں اس کی لاش کو لا کر مدفون کیا۔ اس کے مرنے پر قطب الدین ابیک نے علی مردان خلجی کو ۱۲۰۸ء میں بنگال و بہار کا حاکم بنا کر دہلی سے روانہ کیا۔ اس کی آمد کی خبر سن کر حسام الدین عوض غوری اور دیگر امرائے خلجی اپنے تازہ حکمران کو دریائے کو سی تک استقبال کرکے لے آئے۔ چند روز دیر کوٹ میں رہ کر علی مردان خان دارالامارت گور میں داخل ہوا۔ ۱۲۱۲ء میں قطب الدین ایبک کی وفات کے بعد یہ خود مختار بن بیٹھا اورا پنے ماتحتی صوبہ جات بنگال و بہار کو دہلی کی اطاعت سے نکال لیا۔
علی مردان خان کے مرنے پر ۱۲۱۶ میں امرائے حکومت نے بہ اتفاق حسام الدین عوض غوری کو امیر بنایا۔ اس نے اپنا لقب غیاث الدین اختیار کیا اور بنگال و بہار کے علاقہ جات پر آزادانہ حکومت کرتا رہا اور لکھنوتی(ناگور ضلع بیربھوم) کو اپنا دارالسلطنت بنایا۔ وہ شجاعت ، دلیری اور علمی جامعیت میں کامل تھا۔ اس نے لکھنوتی میں ایک عالی شان جامع مسجد بنائی اور بہت بڑا کالج(مدرسہ) قوم کی تعلیم کے لئے کھولا۔ علماء و فضلاء اور عموماً تمام صاحب کمال لوگوں کا بڑا قدر دان تھا۔ وہ نظام ملکی میں بڑا بیدار مغز تھا۔ بڑا عادل تھا اور رعایا میں مقبول۔ تمام راستے بنائے۔ تبلیغ دین اور اشاعت اسلام میں کوشاں رہا۔ اس کے ایام میں ہندو اور مسلمانوں کے امور میں ہمیشہ مساوات کے اصول قائم رکھے جاتے تھے۔ اس نے بنگالہ کے حدود شرقی کو علاقہ کا مروپ تک بڑھایا اور صوبہ بہار کے رقبہ کو علاقہ ترہت پر قبضہ کرکے ہمالیہ کے دامن تک پہنچایا۔ ان اطراف پر قبضہ کرکے اس نے صوبہ اڑیسہ میں بھی فوج بھیجی اور اس کے فوجی جرنل نے جگر ناتھ جی کے مندر تک وہ تمام علاقہ فتح کر لیا۔ وہاں کے راجہ نے بشرط ادائے خراج اطاعت قبول کرلی۔ صوبہ اڑیسہ میں مسلمانوں کی یہ پہلی کامیابی ہے جس کا سہرا غیاث الدین کے سر باندھا جائے گا۔
کامل دس برس تک اس نے بڑی نموداری کے ساتھ حکومت کی۔ اس کے زمانہ میں بنگال و بہار کے تمام امور میں بڑی ترقی ہوتی رہی۔‘‘
روہیل کھنڈ اور فرخ آباد کے مشرق میں افغانوں نے بہار، اڑیسہ اور بنگال میں جو ریاستیں قائم کی تھیں۔
اگرچہ داؤد خان کے قتل سے بنگال و بہار کی آزادی جاتی رہی تاہم وہ ملک ایسا مغلوب بھی نہیں ہوا کہ اکبر کی سلطنت اس میں بے کھٹکے قائم ہو جاتی جیسا کہ تاریخ ہندوستان اقبال نامہ اکبری جلد پنجم صفحہ ۳۱۳ میں درج ہے کہ:
’’بنگال اور بہادر دونوں کی حالت ایسی تھی کہ وہاں امن و امان کا مستقل طور پر قائم رہنا دشوار تھا۔ اول، وہاں اسباب بغاوت کی کمی نہ تھی۔ دوم جنوب کا بھاری جنگلی خطہ اور شمال کے پہاڑ، جنگل اور سمندر کے آس پاس کی دلدل اور جنگلی، باغی مفسدوں کے ایسے ٹھکانے تھے کہ وہاں سے ان کو رفع دفع کرنا مشکل تھا۔ سوم، جب مغلوں نے ہندوستان بالا کو فتح کیا اور پٹھانوں سے سلطنت کو چھینا تو ان میں سے جن افغانوں نے مغلوں کی اطاعت اور ملازمت نہیں پسند کی۔ وہ سب سکے سب ان ملکوں میں چلے آئے۔ ان کی کثرت سے یہ ملک ہندوستان کا افغانستان بن گیا۔ وہ اکبر کی سپاہ ہے کئی برس تک لڑتے جھگڑتے رہے۔ وہ خاکستر کے نیچے کی چنگاریاں تھیں کہ جب ان کو ہوا لگتی تو چمکنے لگتیں مگر راجہ مان سنگھ(مغل افسر) نے ان چنگاریوں کو ایسا ٹھنڈا کیا کہ پھر وہ نہ چمکیں۔ سترہ برس میں بیسیوں لڑائیوں کے بعد صوبہ جات بنگالہ اور اڑیسیہ و بہار بالکل قبجہ شاہی میں آگئے۔‘‘
اور آگے صفحہ۸۱۱ پر سلیمان شاہ افغان کے متعلق یوں درج ہے کہ:
’’شہنشاہ اکبر نے سلیمان کرلانی جس کا ذکر بہت کچھ ہو چکا ہے کہ وہ ۹۷۱ھ سے ۹۸۱ھ تک حاکم بنگالہ تھا، کاسنا تھا کہ وہ سحر کو ڈیڑھ سو مشائخ و علماء نامدار کے ساتھ تہجد کی نماز جماعت سے پڑھتا ہے اور صبح تک ان کے ساتھ بیٹھ کر تفسیر و تذکیر سنتا ہے۔ صبح کی آغاز کے بعد مہمات ملکی اور سپاہی و رعیت کی داد رسی میں مشغول ہوتا ہے اور تقسیم اوقات کرکے تضیع اوقات نہیں کرتا۔‘‘
ختم شد