کراچی، تین عشروں بعد اہم قومی جماعتوں کی توجہ کا مرکز،تین جماعتوں کے سربراہ میدان میں!
مسلم لیگ(ن) کے صدر اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے پیر کے دن کراچی سے انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کا چار نکاتی منشور پیش کر دیا ہے جس میں چھ ماہ میں کراچی کا کچرا صاف کرنے، تین سال میں گھر گھر پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے اور سفر کی سہولت کے لئے میگا ٹرانسپورٹ سسٹم کی فراہمی کے ساتھ تاجروں اور صنعت کاروں کے لئے ون ونڈو آپریشن کی قانون سازی کے نکات شامل ہیں میاں شہبازشریف نے کالاباغ ڈیم پر بھی واضح موقف اختیار کیا کہ قومی یکجہتی پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ بھاشا ڈیم بنے گا۔ بلا شبہ اس منشور پر عمل ہو جائے تو کراچی اور اہلِ کراچی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ صوبہ سندھ خصوصاً ملک کا معاشی حب کراچی،قومی انتخاب میں ملک گیر قومی سیاست کی دعوے دار جماعتوں کے سربراہوں کی توجہ کا مرکز تین عشروں کے بعد بنا ہے۔ ملک کی تین بڑی جماعتوں کے سربراہ کراچی سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس شہر کے سلگتے مسائل کے حل کے لئے وعدے وعید بھی کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی کراچی کے مسائل کے حل کے لئے اپنا پروگرام پیش کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی وعدے کر رہے ہیں۔ اب میاں شہباز شریف نے جو منشور پیش کیا ہے اس پر عمل ہو جائے تو یہ کراچی کے باسیوں کی مشکلات و مصائب کم کرنے کا باعث بنے گا۔
دو روز قبل ایم ایم اے کے دینی محاذ کے سکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی کراچی آمد کے موقع پر مقامی ہوٹل میں کراچی ایم ایم اے کے صدر حافظ نعیم الرحمن نے بھی کراچی کے لئے ایم ایم اے کا جو منشور پیش کیا تھا وہ بھی قابل عمل ہے پیپلزپارٹی ،ایم کیو ایم اور پی ایس پی نے کراچی کے تمام قومی و صوبائی حلقوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں،جبکہ تحریک انصاف کا بھی یہی دعویٰ ہے ایم ایم اے نے تو کراچی سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر کھڑے ہونے والے امیدواروں کا میڈیا سے تعارف بھی کرا دیا ہے ایم ایم اے سے امید ہے کہ وہ اِس بار بھی 2002ء کی طرح بہتر نتائج دے گی۔واضح رہے 2002ء میں ایم ایم اے نے کراچی اور حیدر آباد سے قومی اسمبلی کی چھ نشستو ں پر کامیابی حاصل کی تھی اور دس صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر، جس میں کراچی سے قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی اُٹھ نشستوں پر اور حیدر آباد سے ایک قومی اسمبلی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کی تھی 2002ء میں ایم ایم اے کو یہاں سے ساڑھے چھ لاکھ ووٹ پڑے تھے۔ سندھ سے ایم ایم اے نے ایک سینٹ کی نشست بھی حاصل کی تھی،جبکہ خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے دو قومی اسمبلی کی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی حاصل کی تھیں اس بار کارکردگی کیسی رہے گی اس کا پتہ تو 25 جولائی کو انتخابی نتائج آنے کے بعد ہی چلے گا تاہم کچھ اندازہ ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کے ساتھ ہونے والی اس بات چیت کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہو جائے گا،جو وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹکے لئے کر رہی ہے ایم ایم اے نے کراچی میں (28جون) گلشن اقبال کے حکیم سعید گراؤنڈ میں مرکزی کنونشن کا اعلان کیا ہے اور آٹھ جولائی کو کراچی میں بڑا شو آف پاور کرنے کے لئے جلسہ عام کرے گی۔ 28 جون کے کنونشن کے بعد اندازہ ہو جائے گا کہ دوسری جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے کتنے امکانات ہیں۔ ایم ایم اے کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کوئی ایسا قابل عمل فارمولہ طے کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے، جس سے دونوں جماعتوں کا ووٹ بنک ایک دوسرے کی کامیابی کو یقینی بنانے میں معاون و مدد گار ہو سکے۔ دیکھئے ایم ایم اے کی یہ خواہش کس حد تک پوری ہوتی ہے۔ اس کا امکان تو ہے، کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک بھی اسی صورت میں اس کے امیدواروں کو کامیاب کرائے گا جب اس کی دوسری جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گی اگر مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ(ن) اور اے این پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے ان سب کو فائدہ ہوگا ایسا ہو گیا تو مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے اور اے این پی ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے مخالف ووٹ بنک کو متحرک کر کے اپنے کئی امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی میاں شہباز شریف این اے 249 کراچی کی، جس نشست سے انتخاب لڑ رہے ہیں اس نشست سے 1993ء اور 1997ء میں دوبار مسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر اعجاز شفیع(مرحوم) خاصی برتری سے کامیاب ہوئے تھے۔اس حلقے میں مسلم لیگ(ن) کی کارکردگی 2015ء کے بلدیاتی انتخاب میں کافی بہتر رہی تھی، غالباً چھ یوسی میں مسلم لیگ (ن)کے امیدواروں نے نشستیں جیتی تھیں حلقہ این اے 249 میں اگرچہ میاں شہباز شریف کی پوزیشن کافی بہتر ہے، مگر کامیابی کو یقینی بنانا ہے تو مسلم لیگ(ن)کو دوسری جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی۔ مذہبی جماعتوں کے علاوہ اے این پی کا بھی اس حلقہ میں قابل ذکر ووٹ بنک ہے۔ حلقہ این اے 249 سے متصل حلقے این اے 250 سے ایم ایم اے کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمن امیدوار ہیں۔ ان کی بھی کوشش ہو گی کہ دوسری جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جائے۔
کراچی میں جن نشستوں پر پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) ایم ایم اے اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے امیدواروں کے درمیان معرکہ آرائی ہو گی ان میں 243 جہاں سے عمران خان حصہ لے رہے ہیں۔ 244 جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسماعیل کھڑے ہیں 245 جہاں سے ایم ایم اے کے زاہد سعید امیدوار ہیں۔249 جہاں سے میاں شہباز شریف اور تحریک انصاف کے فیصل واوڈا امیدوار ہیں 247 جہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی ، ایم ایم اے کے محمد حسین محنتی، پیپلزپارٹی کے عزیز میمن، پی ایس پی کی امیدوار فوزیہ قصوری ہیں۔یہاں سے 1993ء اور 1997ء میں دوبار کیپٹن حلیم صدیقی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ 2002ء میں ایم ایم اے کے امیدوار سابق میئر کراچی عبدالستار افغانی (مرحوم) ایم کیو ایم کی امیدوار محترمہ نسرین جلیل ، مسلم لیگ (ق) کے امیدوار واجد جواد، پیپلزپارٹی کے امیدوار اشتیاق بیگ کو (اشتیاق بیگ اس وقت مسلم لیگ(ن) میں شامل ہیں) اس وقت عبدالستار افغانی مرحوم کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار موجودہ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین تھے۔درویش منش عبدالستار افغانی نے اپنے مدمقابل سارے ہیوی ویٹ امیدواروں کو ایسی شکست دی تھی کہ ایک دو امیدواروں کے سوا تمام امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئی تھیں۔2008ء میں یہاں سے ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت صاحبہ کامیاب ہوئی تھیں اور2013ء میں تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کامیاب رہے تھے۔ اس حلقہ سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار سینیٹر مشاہد اللہ خان کے بیٹے ڈاکٹر افنان اللہ خان ہیں۔ انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والی این جی او کے سرکردہ نوجوان رہنما بیرسٹر جبران ناصر بھی اس حلقہ سے آزاد امیدوار ہیں۔انہوں نے 2013 میں بھی اس حلقہ سے قسمت آزمائی کی تھی۔ اس باروہ قومی اور صوبائی دونوں نشستوں پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ایک امکان یہ بھی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی نشست سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہو جائیں اور پیپلزپارٹی صوبائی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار عمران اسماعیل کے مقابلے میں ان کی حمایت کر دے۔
پیپلزپارٹی کی لیاری کے علاوہ ملیر کی نشستوں پر بھی پوزیشن مضبوط ہے۔ ملیر کی نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ شاہ محمد شاہ اندرون سندھ اپنے آبائی حلقے کی نشست مٹیاری سے بھی امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے قومی اسمبلی میں کراچی سے 18نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو کراچی میں تو ماضی کے مقابلے میں شاید زیادہ نشستیں مل جائیں، جس سے اس کے اس نقصان کی تلافی ہو جائے جو اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے پرانے امیدواروں کے پارٹی چھوڑ کر الگ ہونے کی وجہ سے ہو گا۔ واضح رہے کہ میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ابتدائی رہنماؤں میں ایک سابق صوبائی وزیر علی نواز شاہ پیپلزپارٹی سے الگ ہو کر پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔علی نواز شاہ کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی معتمد لوگوں میں رہا ہے۔وہ اپنی شخصی خوبیوں اور صاف ستھرے کردار کی وجہ سے پارٹی کے اندر اور پارٹی کے باہر تمام سیاسی حلقوں میں قدرو منزلت سے دیکھے جاتے ہیں۔پیپلزپارٹی کو میرپور خاص کے علاوہ ضلع بدین میں بھی آصف علی زرداری کے سابق دستِ راست ذوالفقار مرزا کی بغاوت سے سخت مقابلہ کا سامنا ہے اس سے قطع نظر کہ کون کامیاب ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 1988ء کے بعد پہلی بار پیپلزپارٹی کو اندرون سندھ اپنے مضبوط حلقوں میں کامیابی کے لئے سخت مقابلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔خود لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کامیابی کے لئے پارٹی کو سخت محنت کرنا پڑ رہی ہے، ضلع لاڑکانہ کی صوبائی اسمبلی کی چھ نشستوں میں تین، صوبائی نشستوں پر پیپلزپارٹی کے مخالف اتحاد ’’لاڑکانہ عوامی اتحاد‘‘ کے امیدواروں کی پوزیشن زیادہ مضبوط نظر آ رہی ہے۔ کوئی تعجب نہ ہو گا کہ اگر25جولائی کو محترمہ فریال تالپور اپنی صوبائی نشست بچانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری نے محترمہ فریال تالپور کا نام قومی اسمبلی کے لئے خواتین کی مخصوص نشستوں کی فہرست میں پہلا ، دوسرا ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا رکھا ہے۔ یہ بھی پہلی بار ہو گا کہ وہ قومی کے بجائے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہی ہیں۔2008ء اور 2013ء میں انہوں نے جنرل نشستوں پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا۔ لاڑکانہ میں بلاول بھٹو زرداری اور لاڑکانہ عوامی اتحاد کے مشترکہ امیدوار مولانا راشد سومرو کے درمیان مقابلہ ون او ون ہو گا،(مولانا راشد سومرو کا تعلق ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت العلمائے اسلام(ف) سے ہے)۔ دونوں نوجوان ہیں اور دونوں پہلی بار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو ضلع گھوٹکی میں بھی سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مہر سرداروں کے خاندانوں کا بڑا حصہ پیپلزپارٹی کو خیر باد کہہ کر آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر چکا ہے، صرف سردار محمد بخش مہر ابھی تک پیپلزپارٹی میں موجود ہیں، مہر سرداروں کے پیپلزپارٹی کا ٹکٹ واپس کر کے آزاد لڑنے کے فیصلے کے بعد سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے الزام لگایا ہے کہ ہمارے امیدواروں کو دباؤ ڈال کر ٹکٹ واپس کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔