متحدہ مجلس عمل نے شریعت کا ایجنڈا میدان میں ڈال دیا
خیبر پختونخواہ میں ہی سیاسی گہما گہمی عروج پر پہنچ گئی ۔توقعات پورا نہ ہونے پر امیدواروں اور کارکنوں نے گھونسلے تبدیل کرناشروع کر دےئے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف میں جس طرح تیزی کے ساتھ لوگون نے شمولیت کی اب اسی رفتار کے ساتھ پی ٹی آئی کو چھوڑ رہے ہیں۔تحریک انصاف کے دعووٰں کے برعکس اقدامات سے کارکنوں میں شدید مایوسی پیدا ہوئی اور یوں ایک بڑی تعداد پارٹی کو خیر باد کہہ چکی ہے بلکہ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔تحریک کے نظریاتی کارکن ٹکٹوں کی تقسیم پر شدید ناراض ہیں۔جبکہ ایک معقول تعداد صوبائی حکومت کے اقدامات سے نالاں ہے۔خبیر پختونخوا میں تحریک انصاف اپنے دعووٰں کے مطابق کارکنوں کی توقعات اور معیار پر نہ اتر سکی۔عام انتخابات 2018 کے لئے امیدواروں کو ٹکٹ دےئے گئے ۔جو کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں یا پھر چلتے چلتے دوسرے پارٹیوں سے مستعفیٰ ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے پارٹی کے نظریاتی کارکن قائدین کے دعووٰں پر یقین سے یہ توقع کر رہے تھے کہ عام انتخابات کے موقع پر ٹکٹ عام کارکنوں کو دےئے جائیں گے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا تحریک انصاف نے اپنے دعووں کے برعکس موروثی سیاست کو اپنالیا۔سابق وزیر اعلٰی پرویز خٹک کے داماد سمیت کئی ٹکٹ ایک ہی خاندان میں تقسیم کئے کارکنوں سمیت عہد یداروں کی ایک بڑی تعداد شروع سے پرویز خٹک کے اقدامات اور رویے کی مخالف رہی ہے۔اب حال ہی میں پرویزخٹک نے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے اپنے 13 کروڑ روپے کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔جبکہ پرویز خٹک نے اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام میں نجی ٹی وی چینل سمیت میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ وہ کرائے کے گھر میں رہتے ہیں پرویز خٹک کے مخالف اب اس بات پر آئین کے آرٹیکل 62-63 کی بحث کر رہے ہیں ۔
دوسری طرف متحدہ مجلس عمل بھی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتر چکی ہے۔پشاور میں انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے حسب روایت یک مرتبہ پھر شریعت کو اپنا ایجنڈا قرار دےئے ہوئے کہا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر نظام شریعت نافذکر کے تمام مسائل حل کر دینگے۔بزرگوں کو الاوٰنس اور غریبوں کو علاج کی مفت سہولیات دیں گے۔ سودی نظام اور لوڈشیڈنگ ختم کر کے دکھائیں گے۔رہنماؤں کی اس طرح کی تقاریر کے دوران حاضرین کی طرف سے بار بار نعرہ تکبیر بلند ہوتا رہا ۔مگر کسی نے یہ سوال کرنے کی جرات نہ کی کہ چار عشروں کے دوران آپ دونوں بڑی سیاسی و مذہبی جماتیں مسلسل اقتدار کا حصہ رہی ہیں اور ہر بار شریعت کے نام پر ہی ووٹ لئے ان چار عشروں کے دوران شریعت کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ؟مگر بد قسمتی سے ہمارے عوام صرف اور صرف تالیاں بجانے اور نعرے لگانے تک ہی اپنا اعلٰی سیاسی شعور رکھتے ہیں ۔متحدہ مجلس عمل نے صوبے کے کم و بیش تمام حلقوں میں اپنے امیدوار نامزد کر دےئے ہیں۔مذہبی جماعتیں بظاہر متحدہ ہوچکی ہیں مگر نچلی سطع پر اختلافات بدستور موجود ہیں خصوصاً قبائلی علاقوں میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے کارکن ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں جے یو آئی فاٹا انضمام کی مخالف رہی ہے اور جماعت اسلامی اسی پالیسی کو اچھال کر اپنی جیت یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔جے یو آئی کو سابقہ فاٹا میں صرف ان لوگوں کا ووٹ یقینی طور پر حاصل ہے جو فاٹا انضمام میں جے یو آئی کے ہم خیال ہیں ۔ مگر ایسے ووٹروں کی تعداد بہت کم ہے بہر حال نفاذ شریعت کا نعرہ بلند ہو چکا ہے جو کہ25جو لائی تک انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ لگایا جاتا رہے گا پھر اس کے بعد 2023کے انتخابات کے موقع پر یہی وعدے یہی دعوے اور یہی نعرے دوبارہ لگائے جائینگے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا انداز سیاست مشکوک نظر آرہا ہے دونوں پارٹیوں نے کسی قسم کے اتحاد یا سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا اعلان نہیں کیا مگر بڑی حکمت کے ساتھ دونوں پارٹیوں نے آپس میں حلقے تقسیم کر کے ایکدوسرے کے خلاف کمزور اُمیدوار کھڑے کئے ہیں مثلاً پی کے78جو کہ ماضی میں پی کے2کہلاتا تھا یہاں سے اکثر پیپلز پارٹی کامیاب ہوتی رہی ہے اس مرتبہ اس حلقے کے مضبوط اُمیدوار سید ظاہر علی شاہ کو پی کے77کا ٹکٹ دے دیا جبکہ پی کے 78میں کم شہرت رکھنے والے اُمیدوار کو ٹکٹ دے کر عوامی نیشنل پارٹی کے ہارون بلور کو بڑی حکمت کے ساتھ سپورٹ دی اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی نے پی کے 77میں پیپلز پارٹی کے اُمیدوار سید ظاہر علی شاہ کے مقابلے میں اپنا کمزور اُمیدوارکھڑا کیا ہے دونوں پارٹیاں اپنے جلسوں میں ایک دوسرے پر تنقید یا الزام تراشی سے گریز کرتی ہیں مذکورہ صورتحال بڑی عجیب ہے لگتا ہے کہ کم از کم پشاور کی سطح پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے درمیان ایک خاموش اور غیر اعلانیہ اتحاد ہو چکا ہے اب دیکھنا یہ ہو گا کہ انتخابی نتائج میں ایم ایم اے سمیت کون سا اتحاد اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جے یو آئی (س) نے امداد کے نام پر کروڑوں روپے لے کر تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کیا تھا مگر روزنامہ پاکستان نے اسی وقت برملا یہ کہہ دیا تھا کہ جے یو آئی اور تحریک انصاف کے کارکن اس اتحاد کو قبول کرنے کو تیار نہیں مولانا سمیع الحق نے اسی اتحاد کیلئے ایم ایم اے کو بھی ٹھکرا دیا تھا مگر اب تحریک انصاف سے راہیں جدا ہونے کے بعد جے یو آئی (س) تنہائی کا شکار نظر آ رہی ہے۔