ایوان فیلڈ ریفرنس ، نواز شریف کیخلاف استغاثہ کے گواہ پر اجرح کا موقع ملنا چاہئے : خواجہ حارث

ایوان فیلڈ ریفرنس ، نواز شریف کیخلاف استغاثہ کے گواہ پر اجرح کا موقع ملنا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل چھٹے روز بھی جاری رہے۔ کیس کی سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا بیان ہے کہ لندن فلیٹس شریف فیملی کے ہیں، تفتیشی افسر کہتا ہے کہ نواز شریف بینامی دار اور اصل مالک ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ نے چارٹ پیش کیا مگر وہ گواہ پیش نہیں کیا، جس نے چارٹ تیار کیا۔انہوں نے کہا کہ جن شواہد کو نواز شریف کیخلاف استعمال کرنا ہے، پھر اْس گواہ پر جرح کا موقع بھی ملنا چاہئے لیکن اب یہ چارٹ نواز شریف کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا۔خواجہ حارث نے کہا کہ گواہ سدرہ منصور بھی کہہ چکی ہیں کہ انہوں نے یہ خود تیار نہیں کیا بلکہ آڈٹ رپورٹ سے حاصل کیا۔ اس موقع پرنیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا خواجہ حارث بہت زیادہ وقت لے رہے ہیں جبکہ مجھے جلد حتمی دلائل مکمل کرنے کیلئے کہا گیا تھاجس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے پھر بھی عدالت میں پیش ہو رہا ہوں اورمیں جلد حتمی دلائل مکمل کرلوں گا۔ خواجہ حارث نے حتمی دلائل کے دوران کہا کہ موزیک فونسیکا حکومتی لاء فرم نہیں بلکہ ایک پرائیوٹ فرم ہے، جے آئی ٹی نے موزیک فونسیکا سے نواز شریف کے مالک یا بینفشل اونر شپ کا نہیں پوچھا۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے شاید اس لیے نہیں پوچھا کہ وہ پہلے ہی جانتے تھے۔خواجہ حارث نے مزید کہا کہ یہ نہیں معلوم کہ برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) کے خط پاکستان کیسے پہنچے؟ خط اچانک نمودار ہوئے اور جے آئی ٹی نے تصدیق کیلئے بھیج دیئے۔انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ یہ بات ریکارڈ پر نہیں کہ خط جے آئی ٹی کی تحویل میں کیسے آئے۔ساتھ ہی خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا 2012 ء میں بی وی آئی کو پاکستان سے کوئی خط گیا، جس کا جواب آیا ہو؟ پاکستان میں اْس وقت یہ خطوط کس کی تحویل میں تھے؟خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا کچھ ریکارڈ پر نہیں کہ جے آئی ٹی نے یہ خط کیسے حاصل کیے لیکن نواز شریف کے بینیفشل اونر ہونے کا معاملہ ان خطوط سے اخذ کیا جا رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے، بی وی آئی اور موزیک فونسیکا نے بھی نہیں کہا کہ نواز شریف بے نامی دار یا بینیفشل اونر ہیں۔خواجہ حارث نے سماعت کے دوران فنانشل انویسٹی گیشن ایکٹ 2017 کی کاپی بھی عدالت میں پیش کی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایکٹ میں سیل (Seal) سے متعلق واضح طور پر لکھا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بی وی آئی اور ایف آئی اے کے خط پر نہ مہر ہے اور نہ دستخط ہیں، مہر لگی ہو اور دستخط ہوں تو پھر بھی ایکٹ کے مطابق اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے۔خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ بی وی آئی، ایف آئی اے کے 8 جولائی 2017 کے خط کی تصدیق کس نے کی؟ جس نے بھی تصدیق کی، اس شخص کاعہدہ ہے اور نہ ہی دستخط اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ نوٹری کون ہے۔انہوں نے کہا کہ موزیک فونسیکا میں جس بات کی بنیاد پر باتیں کر رہے ہیں، وہ کہاں ہے؟ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ سیکنڈری شواہد پر جرح کی جاتی تھی۔
ایون فیلڈ ریفرنس

مزید :

علاقائی -