آئیے مُلک میں ایمانداری کو فروغ دیں 

آئیے مُلک میں ایمانداری کو فروغ دیں 
آئیے مُلک میں ایمانداری کو فروغ دیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وطن عزیز میں انتخابات کی وجہ سے سیاستدان ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے میں مصروف ہیں۔ اُن کے نزدیک ایسا کرنا اُن کا جمہوری حق ہے۔ اُن کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ الزام سچا ہے یا جھوٹا۔ اُن کو اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانے کے لئے کسی بہانے کی ضرورت ہے۔ وُہ کسی صورت میں الیکشن جتینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں سیاست ایک منافع بخش کاروبار بن چُکی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد۔ من پسند وزارت کے حصول کے لئے سر توڑ کوششیں کی جاتی ہیں۔ اگر وُہ مل جائے تو پھر ساری عمر کے لئے امیدوار کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ انتخابات پر صرف کی ہوئی رقم کئی گُنا سُود کے ساتھ واپس آ جاتی ہے۔ علاواہ ازیں، مستقبل میں کرپش کرنے کے لئے تعلقات استوار ہو جاتے ہیں۔ وو ٹوں کو خریدنے کے لئے نئے راستے نکل آتے ہیں۔ رشوت خوری کے ماہر افراد سے با ضابطہ تعلق قایم ہو جا تا ہے۔ بد قسمتی سے یہ سب کُچھ اس لئے کیا جاتا ھے کہ موصوف امیدوار مُلک کی خدمت کرنے کے سرشار ہوتے ہیں۔ 
آئین کی رُوسے مُلک کے حکمرانون نے غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد کر وانے کے لئے مُلک کے آئین میں باسٹھ اور تریسٹھ جیسی شقیں بھی رکھی ہیں۔ مذکورہ شقوں کا مقصد یہ ہے کہ انتخابات میں امیدواروں کے ماضی کو اچھی طرح پرکھ کر ایسے ایماندار اور ا مین امیدوار تلاش کئے جائیں جن کا ماضی ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہو۔ اُنکا اخلاق۔ چال چلن اور کردار نہ صرف مثالی ہو بلکہ وُہ معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہوں۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ وُہ لوگ جو ا لیکشن آفیسرز کی جانچ پڑتال کے بعد صادق اور امین قرار دئے جاتے ہیں۔ وُہی لوگ بُری طرح کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایک عام آدمی جس کی گُذر اوقات تنخواہ پر ہوتی ہے اور اتفاق سے ایک عدد بیوی اور تین بچون کا کفیل ہے، ایسے فرد کے لئے الیکشن میں حصہ لینا نا ممکن دکھائی دیتا ہے جب تک کہ اُس کے پاس نا جائز طریقے سے حاصل کیا ہو اپیسہ نہ ہو۔ 
پاکستان میں آ ج کے دور میں الیکشن لڑنے کے لئے کم از کم تین سے چار کروڑ روپے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک عام آدمی ا تنی بڑی رقم کا ہر گز انتظام نہیں کر سکتا۔ یہ رقم اُس کو کہاں سے ملتی ہے؟ اُس کے بینک اکاونٹس اور الیکشن کمشن میں جمع کروائے ہوئے تمام کاغذات اُس کے جائز ذرائع آمد ن کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اور اُس کے مالی وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں لیکن اگر حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا جائے تو وُہ شخص جو گوشواروں میں دکھائے ہوئے اثاثہ جات سے کہیں بڑھ کر انتخابات کا روپیہ صرف کرتا ہے۔ ایسا شخص کیسے صادق اور امین ہو سکتا ہے؟
ہم نے بد قسمتی سے کرپشن کی ا صطلاح کو درست انداز میں نہیں سمجھا۔ پاکستان میں رشوت لینے اور دینے کو اور نا جائز طریقے سے مال جمع کرنے کو ہی کرپشن سمجھا جاتا ہے۔ یہ کرپشن کا صر ف ایک رُخ یا پہلو ہے۔ ایسا شخص جو دوسروں کو الیکشن میں ہرانے کے لئے بے بنیاد الزامات اپنے مد مقابل پر لگاتا ہے یا مد مقابل کی کردار کُشی کے لئے دولت یا غلط ذرائع کا سہارا لیتا ہے وُہ بھی ذہنی طور پر کرپشن میں ملوث ہے۔
ایسا شخص جو اپنے مُفاد کے لئے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتا ہے وُہ شخص کبھی بھی صادق اور امین نہیں ہو سکتا۔ وُہ امیدوار جو اب تک انتخابات لڑنے کے اہل قرار دئے جا چُکے ہیں اُنکے ماضی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ الیکشن کشمن کے اہل کاروں کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے۔ عوام ایسے فیصلوں کو دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں ۔ لیکن وُہ قانونی مو شگافیوں سے واقف نہیں ہیں۔ لیکن وُہ اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں کہ جب تک ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں تو ہمارا مُلک ہر گز ترقی نہیں کر سکتا۔
ہمارے مُلک کی سیاست کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ آج کل صادق اور امین سے زیادہ ایسے لوگوں کی سیاسی جماعتوں کو ضرورت ہے جو الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کا ہُنر جانتے ہوں۔ با الفاظ دیگر ایسے باکمال لوگ جو پٹواری سے لیکر پولیس تک آزادانہ رسائی رکھتے ہوں۔ جو ووٹ خریدنے کے فن میں یکتا ہوں۔ سیاسی پارٹیوں کو اب امین اور صادق قسم کے لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیاسی جماعتیں ہر صورت مین انتخابات جیتنا چاہتی ہیں تاکہ وُہ صوبہ یر مرکز میں اہم سیاسی پوزیشن حاصل کر سکیں۔ سیاسی پارٹیاں ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے لئے بے چین نظر آتی ہیں۔ ایسے لوگ سیاسی پار ٹیاں بدلنے میں بدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ اُن کے ذہن میں کسی بھی سیاسی پارٹی کامنشور اور نصب العیں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اُنکو اپنے وطن سے کوئی محبت نہیں ہوتی۔ وُہ انتخابات میں اس لئے حصہ لیتے ہیں کہ وُہ انتخابات میں لگائے ہوئے سرمائے کو کئی گُنا منافع کے ساتھ واپس لے سکیں۔ 
پاکستان میں شاذ ہی کوئی ایسا نادار، ایماندار اور مخلص انسان ہوگا جس کو پارٹی نے اپنے خرچے پر انتخاب لڑوایا ہوگا۔ بلکہ حْقیقت تو یہ ہے کہ ایماندار آدمی کی ایمانداری اُس کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی قیادت ایسے ایماندار لوگوں سے پیچھا چھڑاتی ہے۔ اُن کو نیک نام اور باکردار لوگوں سے زیادہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو علاقے میں ہر قسم کا اثر و رسوخ رکھتے ہوں۔ لوگوں کے ووٹوں کو خریدنے کا گُر جانتے ہوں۔ بد معاشی اور سینہ زوری سے اور اغوا کی وارداتوں سے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا کر ووٹ حاصل کر سکیں۔ سیدھے سادھے ایماندار کے لئے الیکشن اُسکے ضمیر اور ایمان کا امتحان ہے۔ وُہ لوگ جو ووٹ کی اہمیت اور اچھے اخلاق کے تقاضوں سے عملی طور پر واقف ہیں وُہ ماضی میں بھی انتخابات سے کو سوں دُور تھے۔ جس معاشرے میں ٹن پرسنٹ کی شہرت رکھنے والے یا پانامہ لیکس میں ملوث افراد یا وطن سے غداری کرنے والے لوگ انتخابات کے لئے اہل قرار دئے جاسکتے ہیں توپھر مُثبت نتائج کی کیسے اُمید رکھی جا سکتی ہے؟ مُلک کے انتخابات پر اتنی بھاری اور خطیر رقم خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہی رقم مُلک کا قرض اُتارنے کے لئے صرف کی جاسکتی ہے۔ جس سے مُلک کا فائدہ ہو۔ ایسا اُمیدوار جو کروڑوں روپے صرف کرکے انتخاب میں سیٹ حاصل کرتا ہے وُہ اپنے خرچ کو پُورا کرنے کے لئے بلا شُبہ غلط راستہ اختیار کرے گا۔ بیشک ہمیں اپنے ہی معاشرے سے ایمانداروں آدمیوں کو چُنننا ہے۔ہم آسمان سے فرشتے ڈھونڈ کر نہیں لا سکتے۔ لیکن ہمیں ایماندار امیدواروں کی تلاش کرنی ہوگی۔ الیکٹیبل لوگ نہ صرف سیاسی پارٹیوں کو تگنی کاناچ نچوائیں گے بلکہ وطن عزیز کے مزید ٹکڑے کر دیں گے۔ووٹ دہندگان ایمانداری سے ووٹ دے کر مُلک و قوم کی عظیم خدمت کر سکتے ہیں۔ آئیے مُلک میں ایمانداری کو فروغ دیں۔ 

۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -