”آنسوؤں کا حساب“

”آنسوؤں کا حساب“
”آنسوؤں کا حساب“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نواب شاہ کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے: اپنی بہن کے آنسوؤں کا حساب لوں گا۔ یہ بات انہوں نے اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کی 66ویں سالگرہ کے موقع پر کہی۔ اگرچہ انہوں نے اور بہت کچھ کہا،یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان کا جذبہ قابل تعریف ہے۔ یہاں کی روایات بھی یہی ہیں۔ بھائی اپنی بہنوں کے لئے بہت کچھ کر جاتے ہیں اور بہنیں بھائیوں پر صدقے واری جاتی ہیں۔ ان کی ترقی اور صحت کے لئے دن رات دعائیں مانگتی ہیں۔بھائی کی برائی نہیں کرتیں، ان کی تعریفیں کرتی رہتی ہیں۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اس وقت بھی کسی کی آنکھوں میں آنسو آئے ہوں گے، ان کے بچوں کو چین و قرار نہیں آتا ہو گا۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو آصف علی زرداری کی آنکھوں میں آنسو آئے ہوں گے۔ ان کے دل پر کیا گزری کوئی اور محسوس نہیں کر سکتا۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کو کئی برس بیت گئے۔ لواحقین کو انصاف نہیں ملا۔وہ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کبھی کبھی طاہر القادری آ جاتے ہیں۔اس سانحہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے مجرموں کو سزا ہو جائے گی۔ پھر اس قسم کا واقعہ نہیں ہو گا، مگر اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ لواحقین آنسو بہاتے رہتے ہیں۔


پھر سانحہ ساہیوال ہو جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں۔ مجرموں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ ان کے گھر جاتے ہیں کہ اخباروں میں خبریں شائع ہوتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لے لیا۔ پھرچند دن ہفتے مہینے گزر جاتے ہیں۔متاثرین آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ آنسو بہانا بھی ان کے لئے اچھا ہے۔ اس سے کم از کم صبر آ جاتا ہے۔ فردجذباتی طور پر ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کی دوڑ میں پھر شامل ہو جاتا ہے۔ باقی بچے افراد کو تو دیکھنا ہوتا ہے۔ انہیں سہارا دینا ہوتا ہے۔ مرنے والے کے ساتھ مرا تو نہیں جاتا۔ صرف ان کے ساتھ ظلم نہیں ہوا۔ اس سے پہلے اور بعد میں آنے والوں کے ساتھ بھی اسی طرح ہوا تھا۔ اور ہوتا رہے گا۔یہ قانون عام آدمی کے لئے ہے۔ طاقت اور دولت ہمیشہ عوام پر حاوی رہتی ہے، جس کے پاس یہ دونوں چیزیں ہوں۔ وہ ہر کام کر لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ دنیا میں شکار کھیلنے نکلے ہیں۔ ان کی گاڑی کے نیچے آکر کوئی مر جائے یا ان کے نمائشی اسلحہ سے کوئی مارا جائے۔ انہوں نے اپنا اسلحہ استعمال تو کرنا ہے۔ وہ اندھے نہیں گولی اندھی ہوتی ہے۔


معلوم ہوا ہے کسی شہزادے نے ہمارے وزیراعظم کو گولڈن گن دی ہے۔وہ کون خوش قسمت ہو گا جو اس گولڈن گن کا نشانہ بنے گا۔ اب تک عوام سرکاری طور پر فولادی گن کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اس سے تکلیف بھی زیادہ ہوتی ہے اور لواحقین کے آنسو بھی ضائع جاتے ہیں، ان کے آنسوؤں کا کون حساب لے گا۔اس رمضان میں امریکہ کے شہر فلوریڈا میں میری بہن میجر ثریا پروین جنہوں نے پاکستان میں بے شمار لوگوں کا علاج کیا۔ ان کا بیٹا یاسر روزہ رکھا ہوا اور نماز پڑھنے کی غرض سے گاڑی میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ چند جرائم پیشہ افراد نے اسے پکڑ لیا۔ موبائل اور گاڑی چھین کر اسے باہر نکال دیا۔ پھر گولیاں مار دیں۔ وہ اپنی ماں کا اکیلا بیٹا تھا۔ وہ سڑک پر زیادہ خون بہنے کی وجہ سے شہید ہو گیا۔ یہاں جب خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا، مگر میری بہن کے آنسو کوئی پونچھ نہ سکا۔ میں اِدھر پریشان وہ اُدھر پریشان۔مجھے مشہور اداکار جمیل فخری بھی یاد آیا۔ اس کا بیٹا بھی امریکہ میں کسی نے مار دیا تھا۔ وہ بھی یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا۔ کچھ عرصہ بعد فوت ہو گیا۔ وہ کہتا تھا۔ اپنے ملک کی روکھی سوکھی روٹی کھا لو۔ باہر بچوں کو نہ بھیجو، بے شمار واقعات ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری آنسوؤں کا حساب کب لو گے، کس کس سے لو گے!

مزید :

رائے -کالم -