بھارت، چین لڑائی اور ہم
چین اور بھارتی افواج کے درمیان حالیہ خونریز جھڑپیں ایل او سی کے آس پاس ہوئیں،بھارت چین معاہدے کے تحت اس مقام پر آتشیں اسلحے کا استعمال ہی نہیں بلکہ موجودگی بھی ممنوع ہے۔ سو حالیہ تصادم میں دونوں جانب سے ڈنڈوں، لاٹھیوں، سلاخوں اور پتھروں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ایک کرنل اور تین میجر وں سمیت پچاس سے زائد بھارتی فوجیوں کے مارے جانے اور سو سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات منظر عام پر آئیں، جب کہ جان بچانے کے لیے کئی سارے بھارتی فوجیوں نے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی۔ دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جب یہ تصادم ہوا تو ابتداء میں بھارتی سرکار کی جانب سے کسی بھی قسم کے جانی نقصان سے انکار کر دیا گیا تھا پھر کچھ دیر بعد ہی بھارت کی جانب سے ایک کرنل سمیت تین فوجیوں کے مارے جانے کا اعتراف کیا گیا اور پھر آہستہ آہستہ مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد بیس بتائی جانے لگی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی انتہا پسند حکومت کو اس وقت شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، جب بیس بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کی خبر خود ان کے اپنے میڈیا پر چلنا شروع ہوگئی، جبکہ بعض ذرائع کے مطابق لداخ کی وادی گلوان سے دہلی پہنچنے والے تابوتوں کی تعداد دو سو سے زائد نکلی۔ پھر میجر جنرل کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کے بعد دس فوجیوں کی رہائی کے بعد یہ بھانڈا بھی پھوٹ گیا کہ بھارتی فوجی گرفتار ہوئے تھے یا نہیں۔ان میں لیفٹیننٹ کرنل اور تین میجر بھی شامل تھے۔
بھارتی حکومت اپنے عوام کو دھوکے میں رکھ کر اپنی پوزیشن بچانے کی کوشش کرتی رہی اور انھوں نے اپنے ملک میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے اس کارروائی کے نتیجے میں تینتالیس چینی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے اور کئی زخمی ہوئے۔ چینی دفتر خارجہ نے اگرچہ اس بات کا اعتراف کیا کہ ہماری طرف بھی جانی نقصان ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے کوئی تعداد بتانے سے یہ کہہ کر گریز کیا کہ اگر اس حوالے سے ہم نے کچھ کہا تو کشیدگی میں اضافہ ہو جائیگا اور ہم کشیدگی نہیں چاہتے۔ ایک امریکی نیوز ایجنسی نے امریکی خفیہ ایجنسی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کارروائی کے نتیجے میں پینتیس چینی فوجی مارے گئے جبکہ ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد چار گنا زائد ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی فوجیوں کے مرنے پر افسوس کا اظہار کیا اور عوام کو تسلی دی کہ کسی کو بھی بھارت کی سر زمین کے ایک انچ حصے پر بھی قبضے کی اجازت نہیں دی جائے گی مگر ساتھ ہی مودی نے اپنے پورے خطاب میں چین کا نام لینے سے مکمل طور پر گریز کیا۔ مودی کی تسلیاں بھی پروپیگنڈے کا ہی حصہ تھیں کیونکہ چین لداخ میں 165 کلومیٹر حصے سے بھارتی فوج کو پیچھے دھکیل چکا ہے، جس کی واپسی کا حصول اب بھارت کے لیے تقریباً نا ممکن ہے۔
بھارتی عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے میڈیا پر بھارت میں چینی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم شروع کر کے ایک اور احمقانہ حرکت کی، جو باقاعدہ طور پر بھارتی لیڈرشپ کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ کیونکہ چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور ان کی باہمی تجارت کل 96 ارب ڈالر ہے۔ اب اگر بھارت حقیقت میں چین سے تجارتی بائیکاٹ کی جانب جاتا ہے تو اصل نقصان بھارت کو ہی ہوگا۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر جب سر حدوں پر صورتحال زیادہ خراب ہونے لگی تو بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ روس کے دورے پر چلے گئے۔ جس کا واضح مقصد روس سے امداد مانگنا تھا۔ روس یقیناً آج بھی بہت بڑی طاقت ہے اور فوجی لحاظ سے اس کا مقابلہ امریکہ کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک نہیں کر سکتا لیکن اس کے بھی بہت سارے اقتصادی مفادات ہیں۔ چین سے اس کے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ روس نے بھارت کو یہی مشورہ دیا ہے کہ آپ ہمیں فریق نہیں بنا سکتے بہتر ہوگا کہ آپ اپنی فوجوں کو پرانی پوزیشن پر لے کر جائیں اور چین کے ساتھ کوئی قابل قبول حل نکالیں۔ تاہم فیس سیونگ کو مدنظر رکھتے ہوئے، روسی حکومت نے بیان جاری کیا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ اس معاملے پر دونوں فریقوں میں سے کسی کو بھی ہماری مدد کی ضرورت ہے واضح رہے کہ بھارت نے روس سے دنیا کا بہترین دفاعی نظام ایس یو 400 خریدنے کا معاہدہ کر رکھا ہے لیکن اس کی ادائیگی کرنے کے حوالے سے وہ گریز سے کام لے رہا ہے کیونکہ اس پر امریکی دباؤ ہے۔ چین یہ سسٹم پہلے ہی حاصل کر چکا ہے۔
نظر تو یہی آرہا ہے کہ بھارت نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کور کمانڈر اور بھارت کے جنوبی کمانڈ کے کمانڈر رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل رامیشور رائے نے مودی کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا”آج انتہائی بد قسمت دن ہے۔ میں شکر کرتا ہوں کہ ریٹائرڈ ہوگیا اور میرا بیٹا فوج میں بھی نہیں۔”بھارت کے ریٹائرڈ فوجی افسروں کی تنظیم کے چیئرمین میجر جنرل ستبیر سنگھ نے جنرل رائے کے ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل رائے نے پھر بھی نرم الفاظ استعمال کیے ہیں۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وزیر اعظم چینی جارحیت کے خلاف اپنے علاقوں سے خود ہی دست بردار ہو گئے ہیں۔ ان کا سوال یہ ہے کہ اگر چین نے بھارتی سرحد کو پار نہیں کیا تو اتنے فوجی کیوں اور کہاں مارے گئے؟۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم سے پورا سچ سننے کی خواہاں ہیں۔
1947ء سے آزادی کے بعد بھارت کبھی چپ نہیں بیٹھا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت مسلسل بڑھتی چلی گئی۔ 1965ء کی جنگ میں جو ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بھارت نے کسی بھی وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ 1971ء میں بنگلادیش کی صورت میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی بہت بڑا سانحہ ہے۔ یہ خالصتاً بھارتی سازش کا نتیجہ ہے اور پاکستان توڑنے کے بعد اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بڑے غرور سے یہ بات کہی تھی کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو سمندر میں ڈبو دیا ہے۔ حالانکہ یہ دو قومی نظریہ ہی ہے جو بھارت کو آج تک پاکستان جیسی نظریاتی مملکت کے خلاف بے چین کیے ہوئے ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے ملتا جلتا سانحہ 5 اگست 2019ء کو رونما ہوا جب اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے علاقے کے طور پر ضم کرنے کا اعلان کردیا اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ یہ نا صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی تھی بلکہ صریحاً پاکستان کو جنگ کی دعوت دینے کے مترادف تھا۔ پاکستانی قیادت نے اس موقع پر سفارتی سرگرمیاں کرنے پر زیادہ زور دیا اور جنگی لحاظ سے کوئی بڑی کاروائی کرنے سے گریز کیا حالانکہ ملک کے اندر، باہر بہت سارے لوگوں کا مطالبہ تھا خود مقبوضہ کشمیر کے عوام کی اکثریت اس بات کی حامی تھی کہ پاکستان اس موقع پر اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری مدد کرے۔
یقینا بھارت نے ایک جرم کیا جو بین لاقوامی جرم تھا، ایسے جرم کی سزا ہوتی ہے لیکن بھارت کی تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت کو دیکھتے ہوئے دنیا کے بہت سارے ممالک نے اس موقع پر آنکھیں بند کر لیں اور ہم بھی اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی بنانے میں ناکام رہے۔ لداخ میں ہونے والی حالیہ چین اور بھارت لڑائی ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم بھی کشمیر کی سرحد پر دباؤ بڑھائیں اور چین کے ساتھ مل کر کوئی ایسی پالیسی بنائیں جس سے اس سارے متنازعہ علاقے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کوئی حل نکل سکے۔ایسا موقع بار بار نہیں ملے گا، چین اور بھارت دونوں تیزی سے ترقی کرنے والی اور بڑی معیشتیں ہیں۔ گو کہ اس وقت بھارت کے حالات خراب ہیں لیکن پھر بھی وہ بہت بڑی معیشت ہے۔ اب اگر کسی طور ان کے درمیان یہ جھگڑا شروع ہو ہی گیا ہے تو اس میں سے ہم نے جو فائدہ اٹھانا ہے وہ ہمیں اپنے بل بوتے پر اٹھانا پڑے گا۔ اگر ہم خود کچھ کریں گے تو دنیا کی دوسری اقوام بھی ہماری مدد کو آ سکتی ہیں اور عالمی ادارے بھی بیچ میں پڑ کر معاملے کا کوئی نا کوئی حل نکالیں گے۔
ابھی حال ہی میں سامنے آنے والی سابق امریکی مشیر جان بولٹن کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اس رات جس روز پاکستان نے بھارتی طیارے گرائے تھے تو امریکہ میں کھلبلی مچ گئی تھی کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جوہری جنگ نہ چھڑ جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ بھی اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور پوری دنیا بھی اس سے سنجیدگی سے واقف ہے۔ ہماری جانب سے اگر کوئی دلیرانہ اقدام کیا گیا تو اس کے نتیجے میں عالمی برادری کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول ہو سکتی ہے ورنہ یہ معاملہ دبتا ہی چلا جائے گا۔اور پھر کسی مرحلے پر ایسا نہ ہو کہ بھارت اور چین کے درمیان کوئی پائیدار معاہدہ طے ہوجائے اور ہم تالیاں بجاتے بجاتے پشیمانی میں مبتلا ہو جائیں۔