سورج کی روشنی کو کنٹرول کرنے کے منصوبے 

سورج کی روشنی کو کنٹرول کرنے کے منصوبے 
سورج کی روشنی کو کنٹرول کرنے کے منصوبے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


1815ء کی بات ہے کہ انڈونیشیا کے علاقے سمباوا آئر لینڈ میں موجود ٹیمبورا یاماؤنٹ ٹیمبورمیں ایک زندہ آتش فشاں نے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ٹیمبورا کا پھیلاو اور بلندی قریباً 4000میڑ ہے۔ یہ آتش فشاں پہاڑ پھٹا اور70000 کے قریب لوگ مارے گئے۔ایک سو کھرب لیٹر لاوا نکلا جس کا وزن 140 لاکھ ٹن بتایا جاتا ہے،کافی دنوں تک اندھیرا چھایارہا۔ کئی دنوں تک بھیانک آوازوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ دو دن تک سورج دکھائی نہیں دیا اور چار ماہ تک زلزلوں کے جھٹکے محسوس ہوتے رہے،اس لیے اگلے سال 1816ء کو "Year without summer" سے موسوم کیاگیا۔ ماہرین ارضیات بتاتے ہیں کہ جب یہ لاوا پھٹا تو بے شمار گیسیں پیدا ہوئیں جن کی وجہ سے سورج کی روشنی انڈونیشیا کے علاقے میں جلوا گر نہیں ہوسکی۔ اس سے جو گیس پیدا ہوئی اُس کو کیلشیم کاربونیٹ(CaCo3) کہتے ہیں۔ فوربز میگزین میں ایک ما ہر ارضیا ت ٹریو اور ناسی کا مضمون جب میر ی نظر سے گزرا تو حیرت کی انتہا نہ رہی جس کا مقصد یہ تھاکہ سورج کی روشنی کو زمین پر آنے سے کیسے روکا جائے یا جہاں انسان کا دل کرے وہاں پر سورج کی روشنی کو آنے دیا جائے ورنہ اپنی مرضی کے  مطابق روک لیا جائے۔ بنیادی طور پر یہ پروجیکٹ بل گیٹ کا ہے جو کہ ایک امریکی شہری ہے اور کافی دفعہ وہ دنیا کا سب سے امیر ترین شخص رہنے کا اعزاز بھی حاصل کر چکا ہے۔ بل گیٹ نے یہ منصو بہ ہا ورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسرز کو سونپااور اس منصو بے کو (SCOPEX) کا نام دیا گیا، اس کے لیے تین ملین ڈالرز کی رقم مختص کی گئی اور جو علاقہ چنا گیا ہے وہ سویڈن کا علاقہ کارون ہے جہاں پر وہی گیس CaCo3)) جس نے 1815ء کو انڈونیشیا میں کافی دنوں تک اندھیرا کیے رکھا تھااستعمال کی جائے گی۔ یہ گیس ایک غبارے میں بھر کر زمین سے 20 کلومیٹر کی بلندی پر چھوڑی جائے گی اوریہ تجربہ جولائی 2021 ء میں کرنے کا منصوبہ طے پایا ہے۔ اس تجربے کی بدولت پوری دنیا میں عجیب و غریب گفت و شنید شروع ہوچکی ہے جس کی بدولت دنیا کے سائنس دان دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ سائنس دانوں کا ایک گروہ کہتا ہے اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو ہم اپنی مرضی سے دنیا کے جس حصے میں چاہیں گے وہاں سورج کی روشنی کو روک دیں گے تو اس سے بہت زیادہ نقصانات ہونے کا اندیشہ ہے۔ان کے مطابق قدرتی سورج کی روشنی روکنے سے نباتات وجمادات پر بہت بُرے اثر ا ت پڑ یں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ جانوروں اور درختوں کے لیے بھی نقصان دہ ہو گا۔ اس سے خشک سالی، خوراک میں کمی اور طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ بھی موجود ہے۔ سائنسدانوں کا یہ گروہ اس طرح کی پیشن گوئی کررہا ہے۔ جب کہ سائنسدانوں کا دوسرا گروہ اس کے حق میں دلائل دیتا ہو ا نظر آتاہے کہ اس سے ہم گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ سورج کی روشنی کو روکنے سے ہم زمین کے درجہ حرارت کو بھی مناسب تناسب سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ جس طرح پوری دنیا میں گلیشر پگھل رہے ہیں اور اوزون لیر کو ہر گز رتے دن نقصان ہورہا ہے اس سارے معاملے میں اوزون لیرکو بھی محفوظ کرسکتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب زمین کی بلندی پر یہ گیس چھوڑی جائے گی تو سورج کی روشنی اس گیس سے ٹکرا کر واپس مڑ جائے گی جس سے زمین کا درجہ حرارت اور اس میں نمی کا تناسب بھی بہتر ہوجائے گا۔ پھر ہم اپنے مواصلاتی آلات، ٹیکنالوجی، موبائل فون اور سٹیلا ئٹ وغیرہ کا استعمال دیکھیں گے کہ یہ سب چیزیں کس قدر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی کہاں کھڑے ہیں! پوری دنیا نئی سے نئی ایجادات اور تجربات میں مصروف ہے مگر ہمارے ملک کا ہر وہ طبقہ جو اس دور کا رہبر اور رہنما بن سکتا ہے وہ خود اپنے ہی جیسوں کے ساتھ گریبان چاک کرتا نظر آتا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاستدان اپنے مخالف گروہ کو ذلیل و رسوا کرنے میں مگن نظر آتے ہیں تو کہیں پر علما کرام صرف اپنے مسلک یا گروہ کو بچانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اسی طرح ہر شعبہ میں آپ کو ہر طرف تذبذب، مایوسی اور بددلی نظر آئے گی۔ ان 74 سالوں میں ہمیں اپنے قائد کا پاکستان تو کہیں نظر نہیں آرہا اور نہ ہی اُن کے افکارونظریات پر عمل دکھائی دیتا ہے۔دنیا تو سورج کی روشنی پر کام کرنا شروع کرچکی ہے اور ہمارے رہنما اور لیڈر 74سالوں میں ابھی تک نہ بجلی و گیس،صاف ستھر ا پانی مہیا کر سکے اور نہ ہی ایک انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکے ہیں۔آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ کسی حیر ت کدہ سے کم بات ہے۔۔۔!!!

مزید :

رائے -کالم -