نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا  ہے رکاب میں 

 نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا  ہے رکاب میں 
 نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا  ہے رکاب میں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 گزشتہ تین ماہ سے پیارے وطن میں جمہوریت کے نام پر کیا کچھ نہیں  ہو رہا،کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں،ایسا نہیں کہ ماضی میں سب کچھ اچھا ہو رہا تھا اور اب کایا پلٹ گئی،ماضی میں بھی کم و بیش اس ملک اور قوم کے ساتھ ایسا کچھ ہی ہوتا رہا ہے، تازہ تازہ  وفاق نے یکطرفہ ترامیم کر کے قوم کے ساتھ گھناؤنا مذاق کیا تو بجٹ کی صورت میں غریب اور متوسط طبقے پر زندگی کو اجیرن کر دیا گیا،ادھر پنجاب میں طرفہ تماشا ہو رہا ہے، سپیکر موجود مگر اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپیکر کر رہے ہیں جن کیخلاف پارٹی عدم اعتماد کی تحریک پیش کر چکی ہے، اسمبلی ہال کے ہوتے ہوئے اجلاس ایوان اقبال میں ہو رہے ہیں،وزیر موجود مگر محکموں سے محروم،الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں پر کامیاب تحریک انصاف کے منحرف ارکان کو عدالتی حکم کے باوجود نا اہل قرار نہ دینا اور ان کی نمائندگی کیساتھ ووٹ کو بھی تسلیم کرنا آئین اور عدالتی  احکامات  کے ساتھ مذاق ہے اور ایسا صرف اس لئے ہے کہ حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ ان ہی ارکان کی حمائت سے قائم ہے،پنجاب اسمبلی جیسے بالادست ادارہ کو محکمہ قانون کے حوالے کر دینا،یہ کیسی مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ قانون ساز ادارہ محکمہ قانون کے سیکرٹری کے ماتحت کر دیا گیا ہے،یہ ہے ووٹ اور ووٹ لینے والوں کی عزت و توقیر۔


تاہم موجودہ پنجاب حکومت نے کچھ قابل تعریف اقدامات بھی کئے ہیں،سابق وزراء اعلیٰ کی مراعات محدود کرنے کا فیصلہ اس معاشی بحران میں اہم اور قابل قدر فیصلہ ہے،یہ سلسلہ دراز کرتے ہوئے سابق جرنیلوں،ججوں،سابق حکومتی عہدیداروں،سرکاری افسروں خاص طور پر جو لوگ وطن کو خیر باد کہہ کر بیرون ملک سدھار چکے ہیں سب کی مراعات بحق سرکار ضبط اور جو لوگ وطن عزیز میں ہی مقیم ہیں ان کی مراعات محدود کر دی جائیں، پنجاب اسمبلی نے ایک اور بہت ہی احسن فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت اسمبلی سیکرٹریٹ اور استحقاق کمیٹی کی طرف سے سرکاری ملازمین کو سزائیں دینے کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا ہے،یہ کیسی عجیب بات تھی کہ عدالتی نظام کے متوازی ایک ماورائے عدالت نظام بھی  مروج کر دیا گیا،سزا جزا کا فیصلہ کرنے کے لئے عدالتیں موجود ہیں تو متوازی عدالتی نظام، نظام انصاف پر عدم اعتماد کے مترادف تھا،پنجاب اسمبلی نے اس اختیار کو کالعدم قرار دے کر سرکاری ملازمین کو بہت بڑا ریلیف دیا ہے،ایسا ہی سسٹم تمام سرکاری محکموں میں بھی رواج دینے کی ضرورت ہے تاکہ قوانین پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جا سکے اور غیر ذمہ داری پر سرکاری ملازمین کو عدالتی نظام کے ذریعے سزا دی جانا ممکن ہو سکے۔


اس ملک کی اکثریت نے نیب قوانین میں ترمیم کے ہمیشہ حق میں بات کی،اس قانون میں ملزم کو مجرم بنا دینے اور محض اخباری خبر،نا معلوم خط اور غیر مستند اطلاع پر با عزت لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی رہیں،مگر ایسی ترامیم جس سے حکمران طبقہ کو دودھ سے نہلا دیا جائے اور ان سے ان جائیداد اور اثاثوں میں اضافہ سے متعلق سوال ہی نہ کیا جا سکے یا حکمرانوں کے بیرون ملک مستقل  اثاثوں میں جادوئی اضافہ بارے باز پرس نہ کی جائے احتساب کی روح کے منافی ہے،اگر کسی کے اثاثوں میں غیر فطری اضافہ ہواء ہے تو ریاست اس بارے استفسار کا حق رکھتی ہے کہ دنوں میں اتنا سرمایہ کہاں سے آیا اور کیسے اثاثوں میں اضافہ ہوا، کہتے ہیں نیب ترامیم میں 80فیصد ترامیم تحریک انصاف حکومت کی ہیں، مگر جن شقوں کے ذریعے حکمران طبقہ کو ریلیف دیا گیا ان سے سابق حکومت کا کوئی تعلق نہیں یہ موجودہ حکومت کی شامل کردہ ہیں، اگر ترمیم ضروری تھی تو تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لے کر مشورے سے ترامیم کر کے سب کی توقیر بنائی جاتی، حالیہ ترامیم میں سرکاری ملازمین خاص طور پر فیصلے کرنے والی بیورو کریسی کو تحفظ نہیں دیا گیا جو زیادتی ہے اور ایک بار پھر سے ریاستی نظام کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش ہے۔
بجٹ دستاویز بھی گورکھ دھندہ ہے،

ملکی تاریخ میں شائد یہ پہلا بجٹ ہے جو عبوری ہے اور جس کے پیش ہونے سے قبل ہی مہنگائی کے جن کو آزاد کر دیا گیا، پٹرول،ڈیزل،بجلی،گیس کی قیمت میں اضافہ تو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے کیا گیا،عالمی مالیاتی ادارہ کی کڑی شرائط قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے کے لئے تسلیم کی گئیں،حالانکہ عمران خان کا بھی دعویٰ تھا خود کشی کر لوں گا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا، موجودہ حکمران قرض لینے پر عمران حکومت پر تابڑ توڑ تنقید کرتے رہے، مگر ستم ظریفی کہ اب خود قرض لینے کے لئے عوام پر جینا دوبھر کر دیا گیا، تنخواہ دار طبقہ جو پہلے ہی کڑکی میں ہے اس پر مزید اور ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا گیا،کہا گیا ہے کہ امیروں پر ٹیکس لگایا ہے غریبوں پر نہیں تو کیا آٹا، چینی، دال، گھی، پٹرول، بجلی صرف امیر استعمال کرتے ہیں غریب نہیں،کروڑوں کی آمدن والی کمپنیوں پر 10فیصد سپر ٹیکس عائد کیا گیا ہے مگر اس بات کا اہتمام نہیں کیا گیا کہ کمپنیاں یہ ٹیکس مصنوعات یا خدمات کے نرخ بڑھا کر غریب عوام سے وصول نہیں کریں گی، حالیہ بجٹ بھی ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ کے لئے ہی عذاب ہو گا،اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا،یہ ضروری ہے مگر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوئی سعی دکھائی نہیں دیتی،معاشی بحران سے با عزت نکلنے کے لئے فطری اور آئینی راستہ اپنانا ہو گا،اگر ذاتی سیاسی اور پارٹی یا اتحادیوں کے مفادات کو تحفظ دیا گیا تو معاشی  بحران مزید سنگین ہو گا۔


بحیثیت قوم ہماری ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے اکثر ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں،ان وجوہ میں اہم ترین قیام پاکستان کے وقت اللہ کریم سے کیا گیا وعدہ تھا جسے ہم نے آزادی کے فوری بعد فراموش کر دیا، لیلتہ القدر کو آزادی حاصل کرنے والے ملک کے حکمران اور بالا دست طبقہ نے ”پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الاللہ“ کے وعدہ سے پسپائی اختیار کر لی۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کے شہری،اچھے مسلمان بن سکے نہ ذمہ دار شہری، قوم کے رہنما مختلف اوقات میں تقسیم در تقسیم کی سازش کر کے مفادات حاصل کرتے رہے، ہمارے حکمرانوں نے ذاتی سیاسی اور پارٹی مفادات کو ملکی اور قومی مفادات پر ترجیح دی،نتیجے میں جاگیرداروں کی جاگیریں وسیع،صنعت کاروں کی فیکٹریوں کی تعداد دگنی، تاجروں کے سرمائے میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہوتا رہا اور قومی خزانہ نا صرف سکڑتا رہا بلکہ قرض کا کوہ ہمالیہ کھڑا ہوتا رہا،معیشت گروی رکھ کر ہمارے رہنماؤں نے ملکی سلامتی اور خود مختاری بھی داؤ پر لگا دی، ستم یہ کہ ریاستی ادارے بھی زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی اس دوڑ میں حصے دار بن گئے،ریاست دن بدن کمزور ہوتی گئی،قومیت کی جڑیں گلنے لگیں،اتحاد و یکجہتی کا جنازہ نکل گیا، حب الوطنی خواب،خیال ہو گئی،نتیجہ آج سامنے ہے،”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں“۔

مزید :

رائے -کالم -