کراچی میں سانپ اور سیڑھی کا کھیل
خدشات سر اٹھا رہے ہیں ،لیکن امید باقی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی حکمت عملی کا حصہ ہو ،مگر اس کے نتائج الٹ بھی پڑ سکتے ہیں۔ چھوٹی موٹی اونچ نیچ کے ساتھ معاملات بظاہر درست سمت میں جا رہے تھے۔ 21ویں ترمیم کے ذریعے یہ وسیع تر اتفاق رائے بھی قائم کر لیا گیا تھا کہ ہر قسم کے تشدد میں ملوث عناصر پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے دوران پکڑے جانے والے مطلوب افراد اور سزایافتہ مجرموں کے باعث آپریشن کی ساکھ بہتر ہوتی جا رہی تھی۔ چھاپے کے بعد اگلے ہی روز عجیب و غریب مناظر دیکھنے میں آئے۔ گرفتار افراد کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر لائن بنوا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ اہل کراچی کو یہ بتانا مقصود ہو کہ ایم کیو ایم کی دھاک ختم ہو چکی ہے ،لیکن میڈیا پر ان مناظر کی تشہیر نے جہاں ایک طرف داد پائی وہیں ایم کیو ایم کے ہمدردوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ یہ کہا گیا کہ گرفتار افراد کے ساتھ جنگی قیدیوں والا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری کشیدگی کے عین عروج پر صولت مرزا کی مضحکہ خیز ویڈیو نے معاملات کو مزید الجھا دیا۔ ہر طرح کے تفتیشی اور عدالتی مراحل سے گزر کر سزائے موت پانے والے خطرناک مجرم کو عین پھانسی کی رات ٹی وی چینلوں پر پیش کر کے کس کی مدد کی گئی؟ صولت مرزا کے واعظ نما خطاب سے جہاں بھولے بھالے عوام جوش جذبات میں تالیاں پیٹتے رہے وہیں اہل فکر و دانش کی بڑی تعداد نے اپنے سر پکڑ لئے۔ اس بیان میں ایسی کون سی نئی بات تھی جو پہلے نہ کہی گئی ہو۔ ہاں مگر اپنی آنکھوں کے سامنے جھولتے پھندے سے نجات پانے والے سفاک قاتل نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، بابرغوری اور بعض دیگر رہنماؤں کو رگید کر یہ اشارہ کر دیا ہے کہ وہ الطاف حسین کے ہی ساتھی ہیں یا فی الوقت قائد تحریک کی کھلم کھلا مخالفت کرنے پر تیار نہیں۔ سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کی تعریف سے یہ گمان ہو رہا تھا کہ اہم رہنماؤں میں سے بس وہ ایک ہی ہیں جو ابھی تک جال میں آئے ہیں۔ صولت مرزا کی پھانسی تو ٹل گئی، لیکن اس کے مضمرات کا اندازہ آنے والے وقت میں ہی ہو گا۔ اب لگتا ہے کہ قانون کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کیا جانے والا یہ آپریشن سیاسی رنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ جو جتنا طاقتور ہے اس نے اسی تناسب سے قانون کو موم کی ناک بنا رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کا عسکری ونگ کئی سالوں سے کراچی میں قبضہ جمائے ہوئے تھا تو اس کو اکھاڑنے کا سب سے بہترین طریقہ تو یہ تھا کہ قانون کو اپنا راستہ خود متعین کرنے دیا جاتا۔ صولت مرزا کی پھانسی کے حتمی احکامات جاری ہو چکے تھے تو عملدرآمد کیا جاتا۔ اس طرح نہ صرف ایم کیو ایم ،بلکہ دیگر تمام جماعتوں کے مسلح جتھوں کو بھی واضح پیغام مل جاتا۔ صولت مرزا والے ڈرامے کے بعد تو الطاف حسین یہ کہنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پھانسی کی رات صولت مرزا کی ویڈیو جاری کر کے سزائے موت ٹالنے کا واقعہ نئی تاریخ رقم کر گیا ہے۔ کاش ایسا نہ ہوتا ،لیکن اب کیا ہو سکتا ہے تیر کمان سے نکل چکا۔۔۔ قانون کی بالادستی پر سیاسی مصلحتوں کو حاوی نہ ہونے دیا جاتا تو بہت عمدہ نتائج سامنے آتے۔ خود الطاف حسین کے حوالے سے بھی بیان بازی کرنا پٹڑی سے اترنے کے مترادف ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے دونوں مبینہ قاتلوں کو وزارت داخلہ کے ذریعے سفارتی انداز میں ڈیل کر کے سکاٹ لینڈ یارڈ کے حوالے کر دیا جاتا تو یہ برطانیہ کے نظام انصاف کا امتحان ہوتا۔۔۔ کراچی میں کئی مرتبہ آپریشن ہو چکے۔ ہر مرتبہ یہی کہا گیا کہ کام تمام کر دیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چپے چپے پر فتح کے جھنڈے گاڑے۔ پھر وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ الٹا آپریشن کرنے والے ’’نامعلوم افراد‘‘ کی زد میں آ گئے۔ چن چن کر موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ اللہ نہ کرے کہ اس مرتبہ بھی یہ ساری کارروائی محض سانپ اور سیڑھی کا کھیل ثابت ہو۔ سب سے بڑی احتیاطی تدبیر تو یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کراچی میں اپنی پسند کے سیاسی مہرے آگے بڑھانے کی مہلک غلطی سے گریز کرے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کر کے ایک آدھ مرتبہ کوئی بڑا سیاسی فائدہ حاصل کر لیا جائے اور ایم کیو ایم کو گوشہ نشین ہونا پڑے ،لیکن یہ سلسلہ چلے گا نہیں، بلکہ ایک مخصوص مدت کے بعد بہت مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ کرنے کا کام تو صرف یہ ہے کہ ہر طرح کے جرائم میں جو جو افراد بھی ملوث ہیں انہیں پکڑ کر قانونی کارروائی کے ذریعے کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے اور انہیں بے گناہی کی سزا دی جا رہی ہے۔ کراچی میں آپریشن کے لئے اب تک تو وسیع سیاسی اتفاق رائے موجود ہے، لیکن گورنر راج کی دھمکیوں کے ذریعے فضا خراب کرنے کی کوشش کسی کے مفاد میں نہیں۔ اگرچہ وفاقی حکومت تردید کر چکی پھر بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سندھ میں گورنر راج آیا تو باقی تین صوبوں اور وفاق میں بھی حالات تبدیل ہو جائیں گے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ پیپلزپارٹی کو دھمکانے کی روش قدرے مدھم پڑ گئی ورنہ کیا شہری اور کیا دیہی علاقے، سندھ میں سیاسی بھونچال آ سکتا تھا۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایم کیو ایم کا مکو ٹھپنے کے لئے صولت مرزا اور پیپلزپارٹی کو دبانے کے لئے عزیر بلوچ جیسے مجرموں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور ایم کیو ایم کے درمیان جاری رسہ کشی میں استعمال ہونے والے سیاسی اور میڈیا حلقے خود کو ’’رستم زماں‘‘ تصور کر رہے ہیں۔ ان کی اکڑ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے کچھ وہ تھے کہ کراچی کا ذکر آتے ہی ان کی زبانیں گنگ ہو جایا کرتی تھیں اور بعض ایسے تھے کہ اپنی ملازمتوں تک کے حصول کے لئے قائد تحریک کا دست شفقت استعمال کرتے رہے۔ کراچی کے آتش فشاں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے طاقت کے ساتھ حکمت بھی ضروری ہے۔ کام کو آگے بڑھاتے ہوئے تمام پہلوؤں کو مدنظررکھنا ہے۔ اگر کسی مرحلے پر اداروں کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہو گیا تو سب کیا کرایا ایک بار پھر دھرا رہ جائے گا۔ اس بار سول حکومت کو ہاتھ ملنا پڑے تو اسٹیبلشمنٹ بھی منہ تکتی رہ جائے گی۔ ڈاکٹر عشرت العباد آج بھی گورنر ہاؤس میں مقیم، بلکہ قابض ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے بدھ کو کراچی کا دورہ کیا تو ڈاکٹر عشرت العباد کو نظرانداز کرنے کے چکر میں گورنر ہاؤس کی یاترا سے بھی محروم رہ گئے۔ کورکمانڈر، ڈی جی رینجرز کے ساتھ اجلاس فیصل ایئربیس پر کرنا پڑا۔ ڈاکٹر عشرت العباد کو برقرار رکھ کر گورنر ہاؤس کو نوگوایریا بنانے کی ذمہ داری کس پر، بلکہ کس کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس کا جائزہ فوری طور پر لینا ہو گا۔ فوری طور سے یاد آیا کہ چودھری سرور کے تحریک انصاف کو پیارے ہونے کے کئی روز بعد بھی پنجاب کا گورنر ہاؤس نئے لاٹ صاحب کی راہ تک رہا ہے۔ *