گورنر سندھ کا معاملہ؟
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کراچی کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔ وزیر اعظم کے د ورہ کراچی نے بھی ان گنت کہانیوں کو جنم دیا ہے۔عشرت العباد میاں نواز شریف کے ساتھ کراچی سٹاک ایکسچینج میں نظر بھی آئے ۔ ساتھ بیٹھے ان کے منہ پر تناؤ بہت نمایاں تھا، لیکن امن و امان کے اجلاس سے وہ غائب تھے۔ گورنر عشرت العباد کے حوالہ سے بہت سے سیاسی تھیوریاں مارکیٹ میں رہی ہیں۔ وہ پاکستان کے سب سے طویل تعینات رہنے والے گورنر ہیں۔ ایک رائے تو یہ تھی کہ ان کو اس لئے گورنر قائم رکھا جا رہا ہے، کہ اگر الطاف حسین کو لندن میں سزا ہو گئی تو عشرت العباد پاکستان میں ایم کیو ایم کی قیادت سنبھال لیں گے، لیکن صولت مرزا کے بیان نے عشرت العباد کے حوالہ سے سب تھیوریوں کو غلط قرار دے دیا۔ اس نے اعلان کر دیا کہ عشرت العباد اس لسٹ میں نہیں ہیں، جو الطاف حسین کے بعد قیادت کر نے کے لئے قابل قبول ہوں۔ لیکن سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اگر عشرت العباد کا مستقبل میں کوئی کردار نہیں تو انہیں ہٹایا کیوں نہیں جا رہا۔ تجزیہ نگار سیاستدان شیخ رشید کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اس فیصلہ میں تاخیر کر دی ہے اور عشرت العباد نے خود کو بچانے کا انتظام کر لیا ہے۔ لیکن کیسے۔ اس حوالہ سے ایک خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی انہیں ہٹانے کے حق میں نہیں ہے۔ اور کسی نئے نام پر پیپلزپارٹی سے ابھی تک اتفاق نہیں ہوا۔ اس ضمن میں جن ریٹائرڈ جرنیلوں کے نام سامنے آرہے ہیں۔ ان کو عسکری قیادت کی حمائت تو حاصل ہے، لیکن سیاسی حمائت ابھی تک نہیں مل سکی۔ اسی لئے معاملہ تاخیر کا شکار ہے۔ لیکن جب تک عشرت العباد گورنر ہیں انہیں گورنر ماننا بھی چاہئے۔ ورنہ جب تک نئے نام پر اتفاق نہیں ہوتا پنجاب کی طرح قائم مقام گورنر سے بھی کام چلا یا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عشرت العباد کی جماعت ایم کیوایم بھی وزیر اعظم سے ملنے کی درخواست کرتی رہی، لیکن انہیں بھی وقت نہ مل سکا۔یہ وہی ایم کیو ایم ہے۔ چند ماہ قبل جس کے ایک کارکن کی رینجرز کی تحویل میں ہلاکت کے معاملے پر وزیر اعظم میاں نواز شریف خصوصی طور کراچی پہنچ گئے تھے۔ اورجوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے تیار تھے، لیکن سیاسی منظر نامہ بدل گیا اور اب وزیر اعظم کے پاس ایم کیو ایم سے ملنے کے لئے وقت نہیں تھا۔
ایم کیو ایم کے حوالہ سے وفاقی حکومت کی پالیسی میں ابہام ابھی تک قائم ہے۔ اگر میاں نواز شریف نے ایم کیو ایم کے سیاسی بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں کیا تو ایم کیو ایم سے ملنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ اگر ابھی عشرت العباد کو ہٹانے کا فیصلہ نہیں ہوا تو پھر ان کی بے عزتی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔جب وزیر اعظم نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے حوالہ سے سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی قائدین سے مشاورت کی تو ایم کیو ایم کو دعوت دی تو بعد میں ان سے ملنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ عسکری اداروں کی ناراضی کے خوف سے میاں نواز شریف نے ایم کیو ایم سے ملاقات نہیں کی۔ لیکن اگر گورنر سندھ کو اس لئے نہیں ہٹایا جا رہا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ سیاسی دروازے کھلے رکھے جائیں ۔ تو پھر ایم کیو ایم سے نہ مل کر اپنی حکمت عملی کی نفی کی گئی ہے۔ دس منٹ کی ملاقات سے کوئی طوفان تو نہیں آجا نا تھا۔ بلکہ اس سے ایک پیغام جا سکتا تھا کہ سیاسی ایم کیو ایم قابل قبول ہے ۔ اور عسکری و بھتہ خور ٹارگٹ کلر ایم کیو ایم قابل قبول نہیں ہے۔
گورنر سندھ کی تبدیلی کی خبریں بھی ہر طرف گرم تھیں ۔ اور گرم ہیں۔ یہ میاں نواز شریف کے موجودہ دور کی ایک خاص بات رہی ہے کہ وہ اب کسی بھی فیصلہ میں جلدی نہیں کرتے۔ اس حوالے سے میاں نواز شریف پر شدید تنقید بھی ہو رہی ہے کہ وہ بڑے فیصلوں میں بے جا تاخیر کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں پنجاب میں گورنر کی تعیناتی بھی ایک مثال ہے۔ کہ معاملات قائم مقام گورنر سے ہی چلائے جا رہے ہیں۔ حالانکہ پنجاب میں گورنر کی تعیناتی مسلم لیگ (ن) کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ۔ لیکن یہ فیصلہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔ اسی طرح پنجاب کابینہ میں توسیع بھی غیر ضروری التواء کا شکار ہے۔
برادرم امیر العظیم کہتے ہیں میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے ۔ یہ جہاں آپ کے دشمن کو کاٹتا ہے وہاں آپ کو بھی زخمی کرتا ہے۔ اس طرح ایم کیو ایم بھی میڈیا سے ہی زخمی ہوئی ہے۔ لیکن ایم کیو ایم کے خلاف تمام اپریشن اور تمام میڈیا ٹرائلز اپنی اہمیت کھو دیں گے اگر جو الزام لگائے گئے ہیں وہ عدالتوں میں ثابت نہ ہو سکے۔ اس سے پہلے بھی یہی ہوا ہے۔ عدالتی معاملات میں بے جا تاخیر ملزم کو فائدہ دیتی ہے۔اسی طرح صولت مرزا کی پھانسی میں تاخیر بھی اب ایم کیو ایم کو فائدہ دے گی۔ اس ضمن میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا موقف درست ہے کہ صولت مرزا کی پھانسی میں مزید تاخیر سے ایم کیو ایم کو فائدہ ہو گا۔