یمن‘ باغیوں کے ٹھکانوں پر سعودی بمباری‘ پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان
صنعا،ریاض،اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،آن لائن،اے این این )سعودی فضائیہ نے یمن میں باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے اورمزید کارروائی کے لئے پاکستان سے بھی مدد مانگی ہے۔ سعدی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے وزیراعظم نواز شریف سے فون پر رابطہ کیا اور ان سے یمن کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بات چیت کی ۔ اس رابطے کی روشنی میں نواز شریف کے زیر صدارت ایک اجلاس ہوا جس میں چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی۔ذرائع کے مطابق سعودی حکام سے بات چیت کیلئے آج ایک اعلیٰ سطح کا وفد سعودی عرب روانہ ہوگا جس میں وزیر دفاع خواجہ آصف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور دیگر حکام شامل ہونگے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سینئر عسکری حکام کو بھی سعودی عرب بھیجنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔تفصیل کے مطابق سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کے حکم پرسعودی عرب کے لڑاکا طیاروں نے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔جس سے دارالحکومت صنعا میں حوثی ملیشیا کے زیر قبضہ ایک ائیربیس تباہ ہوگیا اوراس کی فضائی دفاعی صلاحیت پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔سعودی عرب کی شاہی فضائیہ کا یمن کی فضائی حدود پر مکمل کنٹرول ہے۔ واضح رہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی عرب کے معیاری وقت کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات بارہ بجے ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا پر فضائی حملوں کا حکم دیا تھا ۔واشنگٹن میں متعین سعودی سفیر عادل الجبیر نے بتایا ہے کہ یمن میں حوثیوں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی کے تحت حوثیوں کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کردی گئی ہے اور اس فوجی مہم کے لیے تشکیل پانے والے اتحاد میں دس ممالک شامل ہوگئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس کارروائی کا مقصد یمن کے صدر عبدالربومنصور ہادی کی جائز اور قانونی حکومت کادفاع ہے۔ہم یمن میں اس جائز حکومت کو بچانے کے لیے جو بھی بن پڑا،کریں گے ۔انھوں نے کہا کہ امریکا اس مہم میں شریک نہیں ہے لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا یمن میں فوجی کارروائیوں کے لیے سعودی عرب کی معاونت کررہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد نے یمن کی فضائی حدود کو ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا ہے۔سعودی وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے یمن کے سابق مطلق العنان صدر علی عبداللہ صالح کے بیٹے احمد علی صالح کو خبردار کیا ہے کہ وہ عدن کی جانب پیش قدمی سے باز رہیں۔ ادھر سعودی عرب کی حوثی ملیشیا کے خلاف فیصلہ کن طوفان کے نام سے فضائی کارروائی کے آغاز کے بعد جمعرات کو علی الصباح جنوبی شہروں حضر موت اور عدن میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور انھوں نے اس کی حمایت میں مظاہرے کیے ۔ یمنی وزیرخارجہ ریاض یاسین نے کہا کہ حوثی جب تک امن مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتے اور دارالحکومت صنعا اور دوسرے علاقوں سے پسپائی اختیار نہیں کرتے تو تب تک ان کے خلاف فوجی کارروائی جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ 22 ستمبر کے بعد ملک میں جو کچھ رونما ہوا ہے،ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔فوجی کارروائیوں سے جنوبی یمنیوں کو اعتماد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ حوثی باغیوں نے ستمبر سے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کررکھا ہے اور اب انھوں نے گذشتہ ایک ہفتے سے جنوبی شہر عدن کی جانب بھی چڑھائی کردی ہے اور بدھ کو اس شہر کا محاصرہ کر لیا تھا۔انھوں نے صدر منصور ہادی کے کمپاؤنڈ پر طیارے سے تین میزائل بھی داغے تھے لیکن فضائی دفاعی نظام کے ذریعے ان کا رخ موڑ دیا گیا تھا۔ حوثی باغیوں اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کی وفادار فورسز نے پورے یمن پر قبضے کے لیے اتحاد قائم کیا ہوا ہے اور یمن کی سرکاری سکیورٹی فورسز بھی دو حصوں میں بٹ چکی ہیں۔سابق صدر کے وفادار حوثیوں کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ صدر منصور ہادی کے وفادار ان کے مدمقابل ہیں اور انھیں جنوبی اور وسطی یمن سے تعلق رکھنے والے مسلح قبائل کی حمایت حاصل ہے۔عدن سے مانیٹرنگ ڈیسک کے قبائلیوں کی شہر کی جانب پیش قدمی کے بعد صدر عبدالربوہ منصور ہادی عدن کے صدارتی محل سے فرار ہو کر کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے ہیں جبکہ حوثی باغیوں نے ان کی گرفتاری پر انعام کا اعلان کیا ہے۔اطلاعات کے مطابق اس وقت عدن شہر کے مضافات میں قبائلیوں کی صدر ہادی کی حامی سکیورٹی فورسز سے جھڑپیں ہو رہی ہیں جبکہ شہر کے ہوائی اڈے پر باغیوں نے قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔سرکاری اہلکاروں نے صدر ہادی کے بیرون ملک جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس وقت عدن میں ہی نامعلوم مقام پر موجود ہیں۔دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ان کا صدر ہادی سے دن کے پہلے حصے میں رابطہ تھا لیکن اب وہ کمپاؤنڈ میں نہیں ہیں لیکن اس وقت ان معلومات کا تبادلہ نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اطلاع دی ہے کہ صدر عبد الربوہ منصور ہادی باغیوں کے زیر قبضہ سرکاری ٹی وی چینل پر عدن کے قریب بڑے فضائی اڈے پر قبضے کی خبر نشر ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد اپنا محل چھوڑ کر کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔دریں اثنا برطانوی خبررساں ادارے روائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ سعودی حکام نے یمن کے ساتھ اپنی سرحد پر فوج کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام صرف دفاع کی مستحکم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ساحلی شہر عدن کے قریب العند کے فضائی اڈے پر امریکی اور مغربی فوجی ماہرین تعینات تھے جو القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں یمن کی افواج کی رہنمائی کرتے تھے۔حوثی باغیوں اور ان کے اتحادیوں نے یمن کے سب سے بڑے فضائی اڈے پر بدھ کی صبح قبضہ حاصل کر لیا تھا۔عدن شہر سے ساٹھ کلو میٹر دور اس ہوائی اڈے سے گزشتہ ہفتے امریکی اور مغربی فوجی ماہرین کو واپس بلا لیا گیا تھا۔صدر عبدالربوہ منصور ہادی دارالحکومت صنعا پر باغیوں کے قبضے کے بعد عدن منتقل ہو گئے تھے اور یہاں سے اپنا اقتدار بچائے ہوئے تھے۔عینی شاہدین نے بتایا کہ انھوں نے عدن کے ساحل پر ایک پہاڑی پر واقع صدارتی محل سے گاڑیوں کا ایک قافلہ نکلتے دیکھا ہے۔صدارتی محل کے حکام نے کہا ہے کہ صدر عبدالربوہ منصور ہادی ایک کنٹرول روم سے حوثی قبائل اور ان کے حامیوں کے خلاف جنگ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ لیکن ان حکام نے اس کنٹرول روم کے محل وقوع کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے اور نہ ہی یہ حکام اپنا نام ظاہر کرنے پر تیار تھے۔حوثی قبائل کی پیش قدمی کے باعث یمن میں جاری خانہ جنگی میں ہمسایہ خلیجی ممالک کی مداخلت کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ عبدالربوہ منصور ہادی نے پہلے ہی اقوام متحدہ سے ملک میں بیرونی فوجی مداخلت کی اجازت دینے کی درخواست کر رکھی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے وزیر دفاع میجر جنرل محمود الصباحی اور ان کے اعلی فوجی مشیروں کو جنوبی شہر لہج سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔حوثی قبائل کے ترجمان محمد عبدالسلام نے کہا ہے کہ حوثی ملک کے جنوبی حصے پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی افواج عدن میں عارضی طور پر رہیں گی۔منگل کو اطلاعات کے مطابق حوثی جنگجو اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامی فوجی ساحلی شہر مخا اور ضالع میں داخل ہو گئے ہیں۔سیکورٹی حکام اور رہائشیوں کا کہنا ہے کہ حوثی جنگجوؤں اور سابق صدر کے حامی فوجی توپ خانے، جہاز گرانے والی توپوں، خود کار ہتھیاروں سے مسلح ہیں اور ان کی عبدالربوہ منصور ہادی کے حامی ملیشیا اور قبائلیوں سے جھڑپیں ہوئی ہیں۔امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق باغیوں کے گورنر کے دفتر پر قبضہ کر لیا ہے۔ضالع صوبے کا دارالحکومت بھی ضالع ہے اور یہ تعز سے مشرق کی جانب 78 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔روئٹرز کے مطابق باغی اس کے علاوہ تعز سے مغرب کی جانب واقع ساحلی شہر مخا میں بھی داخل ہو گئے ہیں۔یہ شہر دفاعی لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ بحیرہ قلزم اور خلیج عدن کو ملانے والی آبنائے باب المندب پر واقع ہے اور یہ تیل کی تجارت کا ایک مصروف سمندری راستہ ہے۔اس پیش قدمی نے حوثی باغیوں اور صدر عبدالربوہ منصور ہادی کی وفادار فوجوں کے مابین تنازع کے قریب کر دیا ہے جو جنوب میں ساحلی شہر عدن میں مقیم ہیں۔یمن میں حوثی باغیوں نے ایک ایسے وقت پیش قدمی کی ہے جب ایک دن پہلے پیر کو سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے کہا تھا کہ یمن میں عدم استحکام کا پرامن حل نہ نکالا گیا تو خلیجی ممالک یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف ’ناگزیر اقدامات‘ کر سکتے ہیں۔یہ ردعمل یمنی وزیرخارجہ ریاض یاسین کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے خلیجی عرب ریاستوں سے یمن میں مداخلت کریں اور حوثیوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے نو فلائی زون قائم کریں۔شیعہ حوثی گروہ شمال میں اپنے زیرانتظام علاقوں سے مقامی فوجوں سے لڑتے ہوئے جنوب کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں اس سے پہلے اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ یمن خانہ جنگی کے قریب ہے جبکہ شعیہ حوثیوں کی جانب سے علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔گذشتہ دنوں حوثی باغیوں نے ملک کے تیسرے بڑے شہر تعز کے مختلف حصوں پر قبضہ کر لیا تھا جس سے بعد مقامی سطح پر مظاہرے بھی ہوئے۔خیال رہے کہ یمن میں موجود متحارب باغی گروہوں جن میں حوثی، القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ بھی شامل ہیں کا تشدد دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ یمنی صدر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں نے حوثیوں کے خلاف فوجی مداخلت سمیت ہر ممکن کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔اس میں انھوں نے عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل سے بھی حوثیوں کی بغاوت ختم کرنے کے لیے مدد کی درخواست کی تھی۔ جی سی سی کے چھ میں سے پانچ ممالک سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ،بحرین ،قطر اور کویت نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ انھوں نے یمنی صدر کی درخواست پر حوثیوں ،القاعدہ اور داعش کو اس ملک میں پسپا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جی سی سی کا ایک رکن ملک اومان اس فضائی مہم میں شریک نہیں ہے۔ خلیجی ممالک نے خبردار کیا کہ یمن میں حوثیوں کی بغاوت سے پورے خطے کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔ یمن کے صدر کی درخواست پر سعودی عرب ، بحرین، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات عملی طور پر یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے دعویٰ کیاہے کہ سعودی عرب کو یمن میں حوثی قبائل کے خلاف کارروائیوں میں اسے پاکستان کی بھی حمایت حاصل ہے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ اس جنگ میں حصہ لینے کو بھی تیار ہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق سعودی عرب کو یمن کے حوثی قبائل کے خلاف مراکش، مصر اور سوڈان کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ ممالک ضرورت پڑنے پر جنگ میں عملی طور پر بھی شریک ہو سکتے ہیں۔سعودی خبررساں ادارے کے مطابق خلیجی ریاستوں کے اتحاد خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک سعودی عرب، بحرین کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات نے اتفاق کیا تھا کہ وہ یمن کے صدر عبدالربو منصور ہادی کی جانب سے مدد کی درخواست کا مثبت جواب دیں گے۔ قبل ازیں پاکستان کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف کارروائی میں حصہ لینے کے لیے سعودی عرب کی حکومت نے پاکستان سے رابطہ کیا ہے۔ جمعرات کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان تسنیم اسلم نے بتایا کہ سعودی حکومت نے اس سلسلے میں پاکستان سے رابطہ کیا ہے ،ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ آیا یمن میں باغیوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان اپنی فوج بھیجے گا اور سعودی عرب کو کس قسم کی مدد فراہم کی جاسکتی ہے، ترجمان دفتر خارجہ نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔دریں اثناء ایران نے سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن فیصلہ کن طوفان کو فوجی جارحیت قرار دیتے ہوئے فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ۔ ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب کی قیادت میں فضائی حملے فوری طور پر بند کیے جائیں۔یہ حملے یمن کی علاقائی خودمختاری کے خلاف ہیں ۔ہم یمن میں جاری بحران کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام ممکن کوششیں کریں گے جبکہ ایرانی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے اپنے بیان میں کہاکہ ایران یمن اور اس کے عوام کے خلاف تمام فوجی جارحیت اور فضائی حملوں کا فوری خاتمہ چاہتا ہے۔یمن میں فوجی کارروائیاں صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیں گی اور ان سے بحران کے پرامن حل کی راہیں مسدود ہوجائیں گی ۔ انہوں کہا کہ سعودی عرب کی کارروائی خطرناک ہے اور یہ ملکوں کی خود مختاری کے احترام سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔اس سے مشرق وسطی میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پھیلنے کی راہ ہموار ہوگی ۔ روس نے بھی یمن کے بحران پرتشویش کااظہارکیاہے ۔روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں یمن کے حالات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے تمام فریقوں سے کہا ہے کہ وہ مسئلے کاپرامن حل نکالیں۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان اس کا بھرپور دفاع کرے گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت سعودی عرب کو مشکل کا سامنا ہے اور اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساڑھے 700 فوجی سعودی عرب میں موجود ہیں۔نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے 1999 ء میں پاکستان کو مفت تیل دیا تھا اور دونوں ممالک آپس میں بہترین دوست ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کی کمٹمنٹ اٹل ہے اور اسے ضرور نبھایا جائے گا۔ اگر اس ملک کی خود مختاری پر کوئی آنچ آئی تو پاکستان ہر حال میں دفاع کرے گا۔