پاگل!
جناب ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ جیل حکام کی طرف سے عدالت کو ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ موصوف کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہا یعنی وہ ’’پاگل‘‘ ہوگئے ہیں اس لئے انہیں عدالت میں پیش نہیں کیاجاسکتا۔اس رپورٹ پرایم کیو ایم کے جناب رؤف صدیقی نے(جنہیں ایک مقدمے میں ڈاکٹر صاحب کا شریک ملزم ہونے کا ’’شرف‘‘ حاصل ہے ) کہا کہ ایک ’’پاگل‘‘ کی بات پر اعتبار کرکے انہیں عدالتوں میں خوار کیا جارہا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جناب رؤف صدیقی پر الزامات اس وقت کے ہیں جب ڈاکٹر عاصم مکمل ہوش و حواس مع جاہ و جلال اپنی پوری ’’فارم‘‘ میں تھے۔جناب ڈاکٹر عاصم کی مبینہ کرپشن کے جو انکشافات اقساط کی شکل میں آرہے ہیں اس میں ہر قسط کئی ارب روپے کی نکل رہی ہے اور معاملہ اب اربوں سے نکل کر کھربوں تک جا پہنچا ہے۔جتنی دولت رب کریم نے انہیں جائز ذرائع سے عطاء کی ہے یعنی وراثت میں ، وہ بھی ان اور ان کی نسلوں کے گزارے کے لئے کافی سے زیادہ ہے ،لیکن تفشیشی ذرائع کے مطابق جس حساب سے انہوں نے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر ’’اربوں‘‘ روپے حاصل کرنے کے چوکے چھکے لگائے ہیں ، اگر ’’رنگ میں بھنگ‘‘ نہ پڑتی تو موصوف کچھ بھی نہ کرتے اور فی گھنٹہ ایک لاکھ روپیہ بھی خرچ کرتے تو یہ دولت کم از کم ایک ہزار سال کے لئے کافی تھی ۔ ہو سکتا ہے کہ روایت کے مطابق وہ نیب سے ’’پلی بارگینگ‘‘ کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور آدھی دولت حکومت کو واپس کردیں تو چلو پانچ سو سال تک کوئی فکر فاقہ نہیں۔ پڑھنے والے دوست اس موقع پر ہمیں ’’پاگل‘‘ سمجھ رہے ہوں گے ،لیکن غور فرمائیں تو اس بات میں زیادہ نہیں تو تھوڑا سا وزن بہرحال موجود ہے ۔ دیکھیں نہ پاکستان میں سیاسی حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ابھی متحدہ اپوزیشن بنانے کی تیاری کی خبریں آرہی ہیں جیسا کہ پہلے بھی ہم سب نے ’’انہونیاں ‘‘ دیکھی ہیں کہ ’’قاتل مقتول‘‘ دونوں کے وارث گلے مل کر بھائی بھائی بن گئے تو اب بھی ایسا کیوں نہیں ہوسکتاکہ لندن میں ایک گول میز کے اردگرد مولانا فضل الرحمان،بلاول بھٹو،عمران خان، چودھری شجاعت حسین اور فاروق ستار بیٹھے جناب الطاف حسین کے ہاتھ کی پکی ہوئی حلیم کھارہے ہوں۔حکومت گرتی دیکھ کر حکمران اب ان میں دو تین سے تو ضرور رابطہ کریں گے ۔ ایک وزیر محترم جناب مولانا کے ’’تحفظات‘‘ دور کرنے کے لئے سرگرم ہو جائیں گے تو دوسرے نائین زیرو پہنچ جائیں گے ۔ جناب زرداری صاحب سے بھی رابطہ کیا جائے گا تو ان کی بات بھی ماننی پڑے گی کہ ان کے معصوم مانند ’’خرگوش‘‘ دوست کو واقعی معصوم ہی ماننا پڑے گا۔کہا یہی جائے گا کہ جس کو اعتراض ہو وہ عدالت جائے ، ’’میڈیا ٹرائل‘‘ نہ کرے ،بلکہ عدالت میں ثبوت پیش کرے۔ اب ہم اور آپ ثبوت کہاں سے پیش کریں گے ،کیونکہ ثبوت تو سارے حکومت دبا کر بیٹھ جائے گی ۔
ایک سچی بات آپ کو بتائیں۔ سیالکوٹ کریم پورہ، رام تلائی محلے میں ہمارے ایک واقف الیکٹرانکس کی دکان کرتے تھے ۔ وہ کبھی کبھار آپے سے باہر ہوجاتے تو سامنے والے کو دھمکی دیتے کہ میں تمہیں گولی بھی ماردوں تو عدالت مجھے سزا نہیں دے پائے گی ،کیونکہ میرے پاس پاگل پن کا مستندسرٹیفکیٹ ہے اور ان کی یہ دھمکی اکثر کارگر ہوتی، سامنے والا چپ چاپ اپنی راہ لیتا۔ معلوم ہوا کہ کسی مقدمے میں ان کے وکیل نے عدالت میں ثابت کردیا کہ ان کا موکل پاگل ہے۔ عدالت نے انہیں بجائے جیل کے پاگل خانے بھیج دیاجہاں کچھ عرصہ رہ کر وہ مع ایک سرٹیفکیٹ باہر آگئے جس کو وہ بعد میں حسبِ موقع اور حسب ضرورت استعمال بھی کرتے رہتے۔ کچھ عرصہ پہلے وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے جبھی تو اس خاکسار کی ہمت ہوئی کہ ان کا ذکر خیر کردیا وگرنہ خطرہ ہی تھا کہ کالم پڑھ کر وہ سرٹیفکیٹ جیب میں رکھ کر پستول پکڑے مجھے ڈھونڈ رہے ہوتے ۔
بہرحال نتیجہ یہ نکلا کہ پاگل پن کے سرٹیفکیٹ کے بڑے فائدے ہیں ۔ اگر عدالت میں ثابت کردیا جائے تو ڈاکٹر صاحب بھی بہت سے فوائد سے مستفیذ ہوسکتے ہیں ۔ ابھی کالم لکھا جارہا ہے تو سامنے ٹی وی پرایک پروگرام چل رہا ہے جس میں جناب عامر متین کے حوالے سے پٹی چل رہی ہے کہ ماضی میں لندن کی عدالت میں جناب آصف زرداری بھی اپنے پاگل پن کاسرٹیفکیٹ پیش کر چکے ہیں۔ ایک اور صاحب سیاسی جماعت کے سربراہ کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ وہ ’’شیزو فرینیا‘‘ نامی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں جب کہ جناب ہارون رشید فرماتے ہیں کہ وہ ’’بائی پولر ڈس آرڈر‘‘ نامی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال جو کہ اکثر غلط ہی ہوتا ہے، یہ ہے جیسا کہ ان شخصیات کے بارے میں کہا گیا ہے اس میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے یعنی نرم الفاظ میں کہ ان سب میں پاگل پن کے جراثیم ضرور موجود ہیں۔ ایک انسان کو اﷲتعالیٰ نے اتنا نوازا ہوکہ وہ جتنا بھی خرچ کرے پھر بھی ختم نہ ہو ، اب وہ مزید دولت کے لئے انسانوں کو اغوا کرے، قتل کرے، جس ملک نے اسے عزت بخشی اسی کے خزانوں کو خالی کرکے لانچوں میں باہر بھیجنا شروع کردے، اس کے اداروں کا ستیا ناس کردے تو اسے ’’پاگل‘‘ کیوں نہ سمجھا جائے۔
’’پاگل‘‘ کو ہمدردی کا مستحق سمجھا جاتا ہے اور ہونا بھی چاہئے خصوصاً یورپی ممالک میں تو پاگلوں کے وارے نیارے ہیں ۔ وہاں کے پاگل خانوں کی سہولیات اور آسائشات کا سن کر خواہ مخواہ پاگل ہونے کو دل کرتا ہے ۔ بہرحال اﷲسے دعا ہے کہ پاگل ہونے سے سب کو محفوظ ہی رکھے۔ البتہ پاگل ہونے اور بننے میں فرق ہے۔ اگر کوئی واقعی پاگل ہے تو اس کی دنیا میں بھی بچت ہے اور آخرت میں بھی بخشش ہے ،لیکن اگر کوئی پاگل نہیں ،لیکن پاگل بننے کی اداکاری کرے تو اس کے لئے سزا کچھ زیادہ ہی ہے۔
حرف آخر۔ سیاسی جماعت کے جن قائد محترم کا ’’میڈیا ٹرائل‘‘ کیا جارہا ہے کہ ان کے کہنے پر سینکڑوں قتل کے گئے۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ ان پر لگے الزامات صحیح ہیں،لیکن وہ بھی ایک’’سرٹیفکیٹ‘‘ پیش کردیں توان کو انصاف کی رو سے سزا کیسے اورکیوں دی جائے؟ اور اگر یہی سرٹیفکیٹ انہوں نے اگلے جہاں پیش کردیااور فرشتے نے اسے قبول کرکے راستہ ’’کلیئر‘‘ کردیا ، وہ تو بخشے گئے، لیکن ان کے کہنے پر جن سینکڑوں لوگوں نے درجنوں قتل کئے ہیں، ان سب کے پاس تو ’’سرٹیفکیٹ‘‘ نہیں ہیں۔ ان سب نے تو مکمل ہوش و حواس میں یہ قتل کئے ہیں، ان کا کیا بنے گا؟ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو اس نکتے پر بھی غور کرلینا چاہئے۔ایسا نہ ہو کہ ظالموں کی حمایت کرکے آخرت میں وہ بھی ان کی حمایت اور مدد کے نیتجے میں ان ہی کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اﷲ نہ کرے ،دنیا کا ’’کمال‘‘ آخرت کا ’’زوال‘‘ بننے کا سبب بن جائے۔ اگر ضمیر جاگنے کے نتیجے میں ’’پہاڑیوں‘‘، ’’کن ٹٹوں‘‘ اور’’ سرپھٹوں‘‘کی سزائیں ختم ہوجائیں تو بہتر ہے کہ ایساضمیر سویا ہی رہے، بلکہ جو ضمیر مظلوموں کی بجائے ظالموں کا ساتھ دے، اس ضمیر کو خواب آور گولیوں کی بڑی مقدار دے کر ہمیشہ کے لئے سلا دینا چاہئے ، یہی انصاف کا تقاضا ہے۔