’’کس کی کونج سُریلی‘‘ دلچسپ قبائلی ٹورنامنٹ
پرندوں کی تیزآوازیں اور لوگوں کا ہجوم ایک متضاد کام، کیونکہ پرندے گھنے جنگلات اور انسان ہموار زمین پر،نہ سمجھ آنے والی بات ہے،لیکن خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت کے تحصیل سرائے نورنگ میں یہ بات اْلٹ ہے۔ پرندوں کی یہ آوازیں لمبے لمبے پنجروں سے آرہی ہیں جو کہ کھلے میدا ن میں رکھے گئے ہیں۔
اٹھائیس سالہ محمدرفیق وزیر جو کہ سرائے نورنگ ضلع لکی مروت کارہائشی ہے اور پرندوں کا شکار اْن کو اپنے والد سے وارثت میں ملاہے لیکن آج وہ شکار کیلئے نہیں بلکہ زندہ پکڑے گئے کونج کی خوبصورت آوازیں نکالنے کے لئے منعقدکئے گئے ٹورنامنٹ میں لایا ہے۔منتظمین پنجروں کے قطاروں کے سامنے گزرتے ہیں اور کانوں سے فیصلے کرتے ہیں کہ کونسے پرندے کی آواز خوبصورت ہے۔
محمد رفیق کا کہنا کہ ہرسال جنوری اور فروری کے مہینوں میں اس قسم کے ٹورنامنٹ نہ صرف مقامی سطح پر منعقد ہوتے ہیں بلکہ اضلاع کی سطح پر بھی یہ مقابلے ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس قسم کی سرگرمیوں سے لوگوں کو پرندوں کے تحفظ کے بارے میں شعور دلانا ہے کہ یہ دنیا کی خوبصورتی ہے اور اس کی نسل بڑھانے کے لئے کام کرنا ہے۔
چارپائی پر دوسرے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف محمد روشن جوکہ لکی مروت کارہائشی ہے، کئی سالوں کی محنت کے صلے کے انتظار میں ہے جو انھوں نے اپنے شکار کے پرندوں کے ساتھ کی ہیں۔
روشن کا کہنا کہ یہاں پر لوگ پرندوں کاشکار کرنا،اْنہیں پالنا اوراپنے ساتھ گھماناثقافت کا حصہ سمجھتے ہیں اور بڑے شوق سے لوگ کونج کاشکار کرتے ہیں اور اِس کو زندہ پکڑ کر گھروں میں پالتے ہیں جوکہ کئی سال بعد انڈے دینا شروع کردیتے ہیں اور اسطرح ان کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
زمین پر بچھی ہوئی ٹاٹ پر ٹورنامنٹ کے تین ایمپائر بیٹھے ہوئے اور ہاتھ میں کاغذ لئے ہوئے ہیں، پہلے خانے میں پرندوں کے مالکان کے نام، سامنے والے خانے میں پرندوں کی تعداد اور ساتھ والے خانے میں نمبر لکھے جارہے ہیں۔
رضاخان سرکئی خیل بھی اس کمیٹی میں شامل ہے، سوال پوچھنے پر اپنے کام کو جاری رکھتے ہو ئے کہنے لگا، ’’بات چیت کے ساتھ میں اپنا کام بھی کرتا رہونگا کیونکہ شام ہونے والی ہے اور لوگ دور دور سے آئے ہیں جو کہ واپس جانے کے لئے صرف نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘انھوں نے کہا کہ ہم پرندوں کی آواز اور خوبصورتی کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں،لیکن یہ مشکل کام ہے کیونکہ سب آوازیں تقریبا یک جیسے ہوتے ہیں۔ان کے بقول جو مالک جیت جاتا ہے تو وہ اِن پرندوں کی نسل زیادہ سے زیادہ بڑھانے پر توجہ دیتا ہے۔انھوں نے کہا کہ پرندوں کے شوقین لوگ اپنی مدد آپ کے تحت مقابلوں کاانعقاد کرتے ہیں، جس کے پاس جتنے پرندے ہوتے ہیں وہ لاتے ہیں اور ہم جگہ اور آنے والے لوگوں کے لئے کھانے پینے کا اتنظام کرتے ہیں۔
محمد حسین پچھلے پنتس سالوں سے پرندوں کا شکار کر رہا ہے ٹریکٹر ٹرالی میں اپنے دوسرے دوستوں کی مدد سے پرندوں کے پنجرے رکھ رہا تھا اور واپس گھر جانے کے لئے تیاری کر رہا تھا۔ حسین کئی سالوں کے محنت سے کچھ دنوں بعد شروع ہونے والے شکار کے سیزن سے کافی اْمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں کیونکہ اْ ن کے ساتھ پرندے بہت سریلی آوازیں نکالتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اْن کی عمریں بھی زیادہ ہیں جو کہ شکار میں کافی مددگا ر ثابت ہوسکتے ہیں۔
محمدرفیق کاکہنا ہے کہ تینوں ضلعوں کے سطح پر شکاریوں کی تنظیم ہے جوکہ پرندوں کے محفوظ شکار کے لئے کام کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پرندوں پر فائرنگ یا دوسرے طریقے سے مارنے پر پابندی ہے اور جو کوئی اس کی خلاف ورزی کرتاہے تو اْس کو پچاس ہزار روپے جرمانہ کیا جاتا ہے اور اْس بندے کاسوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول پہلے سے گھروں میں موجود کونجوں کو پنجروں میں لاکر دریاکہ کنارے رکھا جاتا ہے، ہم رہائش کے لئے ٹینٹ لگاکر دس پندرہ دوست اْس میں کچھ دن گزار لیتے ہیں۔ رات یا صبح سویرے کونجوں کی بڑی تعداد جب ہمارے رہائش والے علاقے سے گزرتی ہے تو نیچے ہمارے پرندے آوازیں دینا شروع کردیتے ہیں اور نقل مکانی کرنے والے پرندے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ قیام کیلئے محفوظ جگہ ہے۔ یہ انتہائی اونچی پرواز کرتے ہیں اور جب نیچے آجاتے ہیں توہمارے ہاتھ میں پلاسٹک کی رسی ہوتی ہے جس کے سر میں لوہے کا ایک ٹکڑا بندھا ہوا ہوتا ہے اور جیسی ہی پرندے قریب آجاتے ہیں تو اْس کی طرف پھینک دئے جاتے ہیں اور اسطرح پرندے کے گلے یا پاؤں کے گرد گھوم جاتے ہیں، جس کو کھنچ کرپرندوں کو پکڑا جاتاہے۔
محکمہ جنگلات اور آبی حیات کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر خان ملوک کے مطابق خیبر پختونخوا کے بنوں، لکی مروت،کرک، ڈیرہ اسماعیل خان درزندہ اورٹانک جبکہ قبائیلی علاقہ جات میں کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان نقل مکانی کرنے والے پرندوں کیلئے سفر کا راستہ ہے۔
خان ملوک نے بتایا کہ پاکستان دنیا کے اْس مقام پر واقع ہے جہاں سے نقل مکانی کرنے والے پرندے گزرتے ہیں ان میں عقاب، بٹیر،تلور، مرغابیاں اور کونج شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیامیں کونج کے پرندوں کے پندرہ اقسام ہیں جس میں بعض نایاب بھی ہے جبکہ یہاں پر دو قسم کے کونج نقل مکانی کرکے آتے ہیں،جس میں ایک بڑا اور دوسرا جسامت میں چھوٹا ہوتاہے۔جبکہ بعض علاقوں میں بطخ کی سائز کے برابر پرندے بھی آتے ہیں لیکن وہ تعداد میں کم ہوتے ہیں۔ خان نے کہا کہ سائیبریا سے کونج اگست اور ستمبر میں اپنے چار یا پانچ ماہ کے بچوں کے ساتھ سفر شروع کرتے ہیں اور وسطی ایشیائی ممالک آرمانیہ، ازبکستان اورافغانستان آتے ہیں جہاں پھر دوراستوں کا انتخاب کرلیا جاتا ہے، کچھ پرندے ایران سے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں سے ہوتے ہوئے ہندوستان تک پہنچ جاتے ہیں جبکہ کچھ پاکستان آتے ہیں اوریہاں سے گزر تے ہیں اور ہندوستان کی جھیلوں، جنگلات اور باغات تک پہنچ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ واپسی کا عمل دس مارچ کے قریب شروع ہوتا جو کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں تقریبامکمل ہوتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ملوک خان نے کہا کہ پچھلے تیس سالوں میں مہمان پرندوں کی تعداد میں بڑی کمی آئی ہے جس کی بنیادی وجہ افغانستان میں طویل جنگ ہے۔ انھوں نے بتایاکہ اْن کامحکمہ نایاب نسل کے پرندوں کے بچاؤ کے لئے کام کررہاہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف کارروائی بھی ہوتی ہے جبکہ کونج کے شکار کے لئے لائسنس فیس پانچ سو روپے سے پانچ ہزار، کونج کی ایک جوڑے کو پکڑنے کی فیس بیس روپے سے چھ سو کردی ہے جبکہ شکارکے لئے کیمپ کی الگ فیس لی جاتی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق کونج اکٹھے اور رات کے تاریکی میں کافی اونچائی پر سفر کرتے ہیں او ر جو پرندہ عمر میں زیادہ ہوتا ہے وہ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ جو کہ ان راستوں کے بارے میں پہلے سے تجربہ رکھتا ہے۔ ایمرجنسی کے طور دوسرے پرندے بھی رہبرکے طور پر کام کرتے ہیں۔
یہ ایک انتہا ئی حساس پرندہ ہے اور جہاں پر فائرنگ ہو تی ہے تو وہاں سے کئی میل دور کچھ وقت کے لئے آرام کرتاہے۔ایک اندازے کے مطابق سائبریا سے ہندوستان تک کونج پرندہ دس ہزار کلومیڑ سے زیادہ فاصلہ ایک سے دو ہفتے میں طے کرلیتا ہے لیکن یہ انحصارموسم پر ہوتا ہے، اگر بارش نہ ہوتویہ سفر جلد مکمل ہو جاتا ہے۔*
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔