سرکاری دفتروں میں کرپشن جاری

سرکاری دفتروں میں کرپشن جاری
سرکاری دفتروں میں کرپشن جاری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کالم تو دراصل نیوزی لینڈ کی وزیراعظم پر بنتا تھا لیکن بوجوہ میں لیٹ ہو گیا اور بہت لوگوں نے اس پر لکھ دیا اب میرے لئے کوئی زیادہ گنجائش نہیں بچی لیکن پھر بھی میں اُن لوگوں کی آواز میں آواز ملانا چاہتا ہوں جنہوں نے وزیراعظم نیوزی لینڈ کو داد دی ہے۔

دراصل وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے بہت سے عالمی رہنماؤں کا قد چھوٹا کر دیا ہے اور ان کے لئے مشکل صورت حال پیدا کر دی ہے اب دیر تک ہم اپنے لیڈروں کا جیسنڈا آرڈرن کے ساتھ تقابل کرتے رہیں گے۔ انہی دنوں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کیس کا فیصلہ بھی سنا دیا ہے اور یوں کرپشن اور انصاف جیسے ایشوز کو تازہ کر دیا ہے۔

بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض ہمارے ملک کی ایک بڑی اہم شخصیت ہیں۔ انہوں نے رئیل اسٹیٹ کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ جس طرح انہوں نے کراچی میں حکومت سے بحریہ ٹاؤن کے لئے زمین حاصل کی ہے اس کی بھی شاید پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ پہلے دن جب ملک صاحب نے عدالت عالیہ میں ایک بڑی رقم کی پیشکش کی تو میں نے نوٹ کیا کہ میڈیا میں اُس کا بہت کم ذکر ہوا۔

اب سپریم کورٹ نے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کر لی ہے اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف کوئی کیس نہیں بنے گا ،اس پر بہت لوگ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ پہلے اسلام آباد کانسٹیٹیوشن ایونیو میں حیات ریجنسی ہوٹل اور اب بحریہ ٹاؤن کے معاملے میں عدالت نے جو مثالیں قائم کر دی ہیں، اُنہیں ملتے جلتے کیسوں میں مدّنظر رکھنا پڑے گا۔ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر وجود میں آئی۔ کرپشن کے خلاف کامیاب مہم چلائی گئی جس پر عام آدمی کو یقین آ گیا کہ کرپشن ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

ہماری سیاسی تاریخ میں کئی دفعہ ایسی کامیاب مہم چلائی گئی ہے۔ اگر پیچھے جائیں تو جنرل ضیاء الحق نے اعلان کیا تھا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب۔

ایسی مہم کے نتیجے میں عام آدمی بڑا جذباتی ہو جاتا ہے اور لوگ کہتے سُنے گئے ہیں کہ اب یہ گند ہمیشہ کے لئے صاف کر دیا جانا چاہئے خواہ اس کے لئے کئی لوگوں کی قربانی دینا پڑے لیکن عجیب بات ہے کہ گند بڑھتا ہی جا رہا ہے حالانکہ ہم کئی حکومتیں توڑ چکے ہیں۔ اب خدا کرے واقعی گند صاف ہو جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے اور یہ پریشانی کی بات ہے کرپشن کسی ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں سرائیت کر چکی ہے لیکن اب تک کرپشن کے خلاف جو مہم چل رہی ہے اس کا رُخ سیاست کی طرف ہے اور وہ بھی مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف ان کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا۔مبالغہ آرائی بھی کی گئی لیکن بہت کچھ سچ بھی تھا یہاں تک کہا گیا کہ نوازشریف نے 300 ارب اُٹھا کر لندن میں انویسٹ کر دیئے۔

یہ رقم کہاں سے اُٹھائی گئی اس کا جواب وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی نہ دے سکے۔ چور اور ڈاکو کے الفاظ بہت دہرائے گئے لیکن عملی طور پر نوازشریف پر کرپشن باقاعدہ طور پر ثابت نہ ہو سکی اور کچھ دوسرے الزامات پر انہیں مجرم قرار دیا گیا۔دراصل کرپشن کی ہم بڑی محدود تعریف کرتے ہیں ہماری نظر مالی کرپشن پر ٹکی ہوئی ہے حالانکہ اپنی پوزیشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کرپشن کے ضمن میں آتا ہے۔

ذات برادری کا تعصب، اقرباء پروری اور سفارش ہمارے کلچر کا حصہ بن چکا ہے لہٰذا ان برائیوں سے شاید ہی کوئی پاک ہو، پاکستان میں اگر آپ کو کوئی پوزیشن مل جائے اور آپ اُس سے فائدہ نہ اُٹھائیں یہ کچھ ناقابل یقین سی بات لگتی ہے۔

اب ہر کوئی چاہتا ہے کہ کوئی ایسی صبح طلوع ہو جب یہ سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہو اور ہم ایک نئے اور سنہرے دور میں داخل ہو جائیں لیکن یہ کیسے ہو ہمارے ساتھ تو کئی دفعہ دھوکہ ہو چکا ہے جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے خصوصاً فوجی، قوم ایک رومانس میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا کسی سے رعایت نہیں ہوگی، میرٹ کا دور دورہ ہو گا لیکن پھر چھ ماہ کے بعد اُمیدیں دم توڑنے لگتی ہیں۔


اب قوم نے عمران خان سے بڑی توقعات باندھ لی ہیں، خدا کرے کہ یہ پوری ہوں اور جلد ہوں، اس سے پہلے کہ پھر مایوسی پھیلنے لگے۔ حکومتی ایجنڈے میں نمبر 1 کرپشن کا خاتمہ ہے۔ خیال ہے کہ اس کے بعد سب کچھ خودبخود ٹھیک ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں اب تک جو کام کیا گیا اُس کا ہدف سیاسی مخالف ہیں باقی نظام جوں کا توں چل رہا ہے نہ حکومت نے کسی کو چھیڑا ہے اور نہ لوگوں نے اپنا وطیرہ بدلا ہے۔

تمام سرکاری دفتروں میں کرپشن معمول کے مطابق جاری ہے یعنی اب تک کی مہم کے نتیجے میں عام آدمی کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حکومت نے اس معاملے میں اب تک ایک لفظ نہیں کہا۔ عمران خان نے سرکاری افسروں کو خطاب کیا اُس میں دفتروں میں رشوت کا کوئی ذکر نہیں کیا گویا یہ کوئی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ انہوں نے یقین دلایا کہ آپ کام جاری رکھیں میں نے نیب کو کہہ دیا ہے کہ وہ ناجائز تنگ نہ کریں۔

بالکل صحیح ہے کہ نیب کو کسی افسر کو بلاجواز تنگ نہیں کرنا چاہئے لیکن کیا سرکاری محکموں کو کھلی چھٹی ہو گی آئندہ کے لئے بھی کہ وہ لوگوں سے پیسے بٹورتے رہیں۔ اگر واقعی حکومت کا مشن ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہوتا تو عمران خان کو سرکاری افسروں سے کھل کر کہنا چاہئے تھا کہ اب عام آدمی کا استحصال بند ہونا چاہئے اور کرپشن کے خلاف سرکاری محکموں میں بھی مہم چلائی جاتی کہ کرپٹ لوگوں پر نظر رکھی جائے گی اور بری شہرت والے افسروں کو اہم پوسٹوں پر تعینات نہیں کیا جائے گا اور ترقی نہیں دی جائے گی وغیرہ وغیرہ لیکن افسوس کہ اس معاملے میں تو وزیراعظم یا کسی وزیر نے آج تک ایک لفظ نہیں کہا۔ اس صورتحال سے کیا لوگوں کے ذہنوں میں یہ شک پیدا نہیں ہو گا کہ کرپشن کا غلغلہ صرف سیاسی مخالفین کو شکست دینے کا ایک حربہ ہے۔


یہ سوال بڑا اہم ہے کہ کیا حکومت کرپشن کے خاتمے میں مخلص ہے اور وہ اس کام سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتی لیکن یہ بھی اہم سوال ہے کہ کرپشن کے خلاف اس مہم میں کتنے فیصد کامیابی متوقع ہے اور معاشرے کو اس کی کتنی قیمت دینا پڑے گی۔ فوج اور عدلیہ تو کرپشن کے خلاف اس مہم سے باہر ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ احتساب کا اُن کا اپنا نظام ہے۔

سرکاری دفتروں کو بھی عملی طور پر اس سے باہر رکھا گیا ہے گویا اس کا ہدف سیاستدان اور بزنس مین ہیں۔ سیاست کو بدنام کرنے کاکا م تو ایوب خان کے مارشل لاء سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ ہماری سیاسی زندگی پر اس کے نتائج کا تجربہ ہمارے اہل دانش کرتے رہتے ہیں۔

اب بزنس کمیونٹی کا گھیرا تنگ کرنے کے معیشت پر فوری منفی اثرات کا تجربہ بھی ہوتا رہتا ہے اور حکومت اس صورتحال سے گھبرا کر اس کمیونٹی کو اصلاحات کا پیکیج بھی دیتی رہتی ہے۔

دراصل بات یہ ہے کہ جب بیماری آخری درجے پر پہنچ جاتی ہے تو پھر علاج شروع کیا جائے جیسا کہ ہمارا قومی رویہ ہے تو پھر یہ عمل تکلیف دہ تو ہو گا۔ پھر عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب تکلیف بڑھتی ہے اور مریض کراہنے لگتا ہے تو پھر علاج بند کر دیا جاتا ہے یا دوائیں بدل دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ماضی میں شاید یہی کچھ ہوتا رہا ہے اب پتہ نہیں کیا ہو گا چونکہ اب بھی گھبراہٹ تو ہے کہ بزنس نہیں چلے گا تو معیشت کا پہیہ نہیں چلے گا تو پھرلوگوں کی تکلیف تو بڑھ جائے گی۔ افسر فیصلے کرنے میں محتاط ہو جائیں گے تو سرکار کا کام تومتاثر ہو گا۔ دراصل ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ وقتاً فوفتاً مہم چلاتے ہیں جس میں لوگ نیت میں فتور کا شک کرتے ہیں۔

ہم عدالتوں، قوانین اور کرپشن سے متعلق محکموں میں اصلاحات کرنے کیلئے ہمت نہیں کرتے کیونکہ یہ لمبا کام ہے اور اس میں دماغ سوزی کرنی پڑتی ہے اوراس سے ہمارے فوری مقاصد پورے نہیں ہوتے۔

ہم اداروں کو اس قابل بنانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کرتے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور اپنا کام مسلسل کرتے رہیں تاکہ ہمیں وقتاً فوفتاً کوئی خاص مہم نہ چلانی پڑے اور لوگ حکومتوں اور اداروں کی نیت پر شک نہ کریں۔ مناسب وقفے کے بعد اداروں کے آزاد ہونے کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے جس پر شاید ہی کوئی یقین کرتا ہو کیونکہ ہماری تاریخ بہت کچھ بتاتی ہے کہ قوم کے ساتھ کس کس قسم کے دھوکے ہوتے رہے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -