جنگل کی اندھیری راتیں جنہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے وہی ان راتوں کی تاریکی اور دہشت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ جنگل پر ایک سکوت مرگ طاری ہوگیا۔ کبھی کبھی کسی جنگلی درندے کی آواز اس سکو ت کو توڑ کر خاموشی کے سینے پر ایک خراش سی ڈالتی ہوئی غائب ہوجاتی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ہاتھی کی آواز پھر سنائی نہیں دی تھی۔ شاید وہ تھک ہار کر ندی پار کرکے دوسرے جنگل میں جاچکا تھا مجھے ڈاکو رنگا پتی کی طرف سے بھی خطرہ لگا تھا۔ اندھیرے میں مجھے جنگل کے درخت، ان درختوں کے درمیان سے گزر کر نیچے جاتی پتھریلی پگڈنڈی دھندلی دھندلی دکھائی دے رہی تھی۔ جنگل کے گہرے سکوت نے مجھ پر خدا کے جلال کی ہیبت سی طاری کردی۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور خداوند کریم کی حمد و ثنا کرنے لگا۔ اچانک مجھے اییس آہٹ سنائی دی جیسے کوئی جھاڑیوں پر قدم رکھتا آگے بڑھ رہا ہو۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ سامنے درختوں کے نشیب میں دو انسانی سائے کھنڈر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں وہ ذرا قریب آئے تو میں نیا ندھیرے میں بھی ڈاکو رنگاپتی کو پہچان لیا، اس کے ساتھ اس کا ایک اور ساتھی ڈاکو تھا۔ کھنڈر کے قریب آکر وہ جھک کر آگے بڑھنے لگے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 149 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں ان سے مقابلے کے لئے بالکل تیار تھا۔ اچانک رات کے سناٹے میں ہاتھی کی غصیلی چنگھاڑ بلند ہوئی اور وہی دیو پیکر ہاتھی دیوانہ وار جھاڑیوں سے نکل کر ان دونوں ڈاکوؤں کی طرف لپکا۔ اس اچانک حملے سے ڈاکو گھبراگئے۔ وہ پیچھے بھاگنے لگے مگر ہاتھی ان کے سر پر پ ہنچ چکا تھا۔ رنگاپتی نے پلٹ کر ہاتھی کی سونڈ پر تلوار کا وار کیا۔ ہاتھی نے سونڈ اوپر اٹھا رکھی تھی۔ دوسرا ڈاکو بائیں جانب کو بھاگا۔ ہاتھی نے سونڈ بڑھا کر اسے دبوچ لیا اور پھر اتنی زور سے زمین پر پٹخا کہ ڈاکو کی چیخ بھی نہ نکل سکی ہاتھی نے اس پر اپنا بھاری پاؤں رکھ کر اسے کچل دیا۔ رنگا پتی زمین پر گر پڑا تھا۔ وہ تیزی سے اٹھا او رپیچھے ہٹنے لگا، وہ تلوار چلارہا تھا تاکہ ہاتھی کو آگے بڑھنے سے روک سکے لیکن ہاتھی اس کے سر پر آگیا۔ رنگاپتی نے تلوا رکا ایک بھرپور وار ہاتھ کی سونڈ پر مارا۔ مجھے ایسا نظر آیا جیسے ہاتھی کی سونڈ آدھی کٹ کر ایک طرف کو لٹک گئی ہو۔ ہاتھی کے حلق سے ایک بھیانک چیخ نکلی اور اس کے ساتھ ہی ہاتھی نے اپنا آپ رنگاپتی ڈاکو کے اوپر گرادیا۔ یہ گویا ایک پہاڑ تھا جو ایک چوہے پر اچانک گر پڑا تھا۔ سفاک ڈاکو رنگاپتی کا جو حشر ہوا وہ میں نے دن کی روشنی میں دیکھا۔ اس کی لاش چپٹی ہوکر زمین کے ساتھ چپک گئی تھی۔ اس وقت میں ڈاکو رنگا پتی کی لاش کو دیو پیکر، غصے اور انتقام کی آگ میں چنگھاڑتے ہوئے زخمی ہاتھی کے نیچے چپٹا ہوا دیکھ رہا تھا۔ ہاتھی اپنے جسم کر زمین پر رگڑ رہا تھا۔ اس کے حلق سے دل دہلادینے والی چنگھاڑیں نکل رہی تھیں۔ جب ہاتھی کے انتقام کی آگ قدرے ٹھنڈی ہوئی تو وہ اٹھا۔ اس نے اپنی سونڈ اوپر اٹھا کر ایک فاتحانہ چیخ بلند کی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آدھی سونڈ کٹ چکی تھی۔ پھر وہ زخمی سونڈ کو بار بار اپنے منہ میں ڈالتا جھولتا جھامتا نشیب کے درختوں میں گم ہوگیا۔
ابم یرا وہاں ٹھہرنا بے کار تھا۔ جس کام سے آیا تھا وہ انجام کو پہنچا۔ میں ندی پر آگیا۔ سوئے اتفاق ندی کے کنارے ایک کشتی موجود تھی میں نے کشتی کو کھولا اس میں بیٹھ کر کشتی کو لہروں میں چھوڑ دیا۔ سارا دن کشتی میں سفرکرتا رہا۔ شام کے قریب کشتی ندی سے نکل کر دریا میں داخل ہوگئی۔ میں کشتی کو دری اکے بہاؤ کے رخ پر لاکر اس کی دوسری جانب چلا گیا اور کشتی کو آگے دھکیلنے لگا۔ رات بھر کشتی دریا میں چلتی رہی اگلے دن صبح کے وقت کشتی ایک گاؤں کے گھاٹ کے ساتھ لگادی پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ برہان پور سے دوسو کوس آگے کی جانب مالا بار کے ساحل کے قریب نکل آیا ہوں۔ یہاں سے مال بردار بادیانی کشتیاں ہندوستان کے مغربی ساحل کی طرف جاتی تھیں۔ میرا ارادہ ہندوستان کی سرزمین سے نکل کر اندلس کی طرف کوچ کرنے کا تھا۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ گھاٹ پر بیس روز تک مزدو ربن کر مال ڈھوتا رہا۔ اس طرح سے کچھ کوڑیاں اکٹھی ہوگئیں تو کرایہ ادا کرکے بادبانی کشتی میں بیٹھ کر ساحل سمندر کی طرف روانہ ہوا۔
چار روز کے سفر کے بعد کشتی گجرات کی بندرگاہ کالی گھاٹ پر پہنچی۔ گجرات پر ان دونوں مندوب بیگ خان کی حکومت تھی جو شہنشاہ بابر کا باج گزار تھا۔ عملی طور پر وہاں مغلوں کی عملداری تھی۔ یہاں سے ملک اندلس کو مہینے میں دو بار بادبانی جہاز جاتے تھے۔ سونے کی سات اشرفیاں ایک آدمی کا کرایہ تھا میں نے اس ساحلی شہر میں جڑی بوٹیوں کا دھندا شروع کردیا تاکہ اندلس جانے کا کرایہ جمع کرسکوں۔ اس چھوٹے ساحلی شہر میں بڑے مندر تھے ، ان میں بھورکالی، ویشنو اور شیو کے مندر بھی تھے۔ شہر کے جنوب میں ایک قدیمی جھیل کے پاس ناگ مندر تھا جس میں سانپ کے بت کی پوجا ہوتی تھی اس مندر میں زندہ سانپ بھی قربان گاہ پر پھرتے رہتے تھے۔ چنانچہ یہاں سانپ کے کاٹے کی دوائی تیار کی اور مندر سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ کوٹھری لے کر دھندا شروع کردیا۔ جس کو سانپ ڈستا لوگ اسے اٹھا کر میرے پاس لے آتے۔ اگر زیادہ دیر نہ ہوئی ہوتی۔ میں اپنی دوائی پلادیتا اور سانپ کا زہر غیر موثر ہوجاتا اور اس فر دکی جان بچ جاتی۔
ایک دن ایسا ہواکہ ایک بوڑھا آدمی اپنے نوجوان بیٹے کو چارپائی پر ڈال کر میرے پاس لایا۔ نوجونا کا رنگ نیلا پڑچکا تھا۔ وہ بے حد کمزور تھا اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے تھے۔ اس کا نام گوسوامی تھا۔ اس کا باپ ہاتھ باندھ کر میرے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اس نے اشکبار آنکھوں سے مجھے بتای اکہ اس کا ایک ہی بیٹا ہے جس کو ایک عجیب مرض ہوگیا ہے۔ آج سے دو ماہ پہلے وہ کھیتوں میں کٹائی کررہا تھا کہ ایک کالے ناگ نے اس پر حملہ کردیا۔ اس نے درانتی مار کر کالے ناگ کے دو ٹکڑے کردئیے۔ اس کے بعد رات کو وہ چار پائی پر سورہا تھا کہ ایک پھنکار کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس کے سینے پر ایک سیاہ ناگن پھن اٹھائے بیٹھی ہے۔ نوجوان گوسوامی کی آواز خوف کے مارے خشک ہوگئی وہ تھر تھر کانپنے لگا۔ اتنے میں کالی ناگن نے اس کی گردن پر ڈس لیا اور سینے سے اتر کر غائب ہوگئی۔ نوجوان گوسوامی نے شور مچادیا۔ گوسوامی کے باپ کو یقین تھا کہ اس کا بیٹا اب زندہ نہیں بچ سکے گا۔ مگر وہ زندہ رہا۔ زہر نے اس کی گردن پر ایک سیاہ داغ ڈال دیا تھا۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ ہر ہفتے کی رات کو ناگن آتی ہے اور گوسوامی کی گردن پر ڈسی ہوئی جگہ پر ڈس کر غائب ہوجاتی ہے۔
’’تب سے میرے بچے کی زندگی موت سے بدتر ہوگئی ہے۔ مہاراج کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنے بچے کی جان کیسے بچاؤں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ناگ کی ناگن ہے جو اپنے ناگ کا بدلہ لے رہی ہے اور میرے بچے کو ایک دم مارنے کی بجائے تڑپا تڑپا کر مار رہی ہے۔ ہفتہ کی رات کو میرے بھائی اور رشتے دار تلواریں بھی لے کر بیٹھتے ہیں مگر سانپ بجلی کی طرح ڈس کر غائب ہوجاتا ہے۔ وہ کہاں سے آتا ہے؟ کہاں چلا جاتا ہے؟ کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ایک آدمی نے اس کو ہلاک کرنے کی کوشش کی تو سانپ اچھل کر اس کے منہ پر جھپٹا اور ایسا ڈسا کہ وہ بدقسمت اسی وقت مرگیا۔ اب تو ڈر کے مارے میرے بیٹے کے نزدیک بھی کوئی نہیں پھٹکتا۔ وید جی! آپ گنوان ہیں رشی منی ہیں میرے بچے کی جان بچالیجئے۔‘‘
میں نے نوجوان گو سوامی کا بغو معائنہ کیا۔ اس کی گردن پر سانپ کے بار بار کاٹنے سے نیلے رنگ کا کھرنڈ جم گیا تھا۔ جس میں سے کالے رنگ کا زہر مواد رس رہا تھا۔ ناگن کے زہر کے نشے سے وہ غنودگی کے عالم میں تھا۔ سانپ اس بدقسمت نوجوان کو اس طریقے سے ڈس رہا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلا جارہا تھا۔ میں نے نجووان کے باپ کو تسلی دی اور ہفتہ کو اس کے مکان پر آنے کا وعدہ کیا۔ ہفتہ کی شام کو بوڑھا میرے پاس آیا اور مجھے اپنے ساتھ اپنے مکان پر لے گیا۔ شہر کے کنارے ایک جوہڑ کے کنارے ایک کچا کوٹھا تھا۔ جس کی چھت ناریل کی شاخوں کو جوڑ کر بنائی گء ی تھی۔ بوڑھے کی بیوی یعنی نوجوان کی ماں غمگین چہرہ لئے اپنے بیٹے کی چارپائی کے پاس بیٹھی لوہان سلگائے مالا کا جاپ کررہی تھی۔ نوجوان گو سوامی غنودگی کے عالم میں چارپائی پر پڑا تھا۔ آج کی رات ناگن کے ڈسنے کی رات تھی۔ جب رات گہری ہوگئی تو میں نے نوجوان کے ماتا پتا کو کوٹھڑی میں سے نکال دیا اور اکیلا گوسوامی کی چارپائی کے سرہانے کی طرف بیٹھ گیا۔ کوٹھری میں ایک ہی چراغ جل رہا تھا۔ گوسوامی کی ماں نے سرہانے ایک چوکی پر کشن کی مورتی کے پاس لوہان سلگا دیا تھا۔ جس کی تیز بو کوٹھری میں پھیلی ہوئی تھی۔ جب آدھی رات کا وقت قریب آیا تو میں نے نیم مدہوش نوجوان کے کان میں جھک کر کہا کہ وہ فکر نہ کرے آج اسے ہمیشہ کے لئے زہریلی ناگن سے نجات مل جائے گی۔ یہ کہہ کر میں نے ایک خالی چوکی لی اور نوجوان کے سرہانے ڈال کر اس پر بیٹھ گیا۔ باہر گہری خاموشی تھی۔ کوٹھری میں کوئی روشندان نہیں تھا۔ بس ایک نالی تھی جسے اینٹ گارے سے بند کردیا گیا تھا مگر میں نے اسے کھلوادیا تاکہ ناگن کو اندر آنے کا موقع مل سکے۔
آدھی رات ہوچکی ہوگی کہ مجھے سانپ کی ہلکی سی پھنکار سنائی دی۔ میں آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ چراغ کی روشنی میں کوٹھری کی دیواریں اور دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی گٹھڑی مجھے صاف نظر آرہی تھی مگر سانپ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے اس پر نگاہ ڈالی سانپ وہاں بھی نہیں تھا لیکن پھنکار ابھری۔ یہ آواز میرے پیچھے سے آرہی تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میرے پیچھے کرشن کی مورتی کے پاس دو قدموں کے فاصلے پر لمبے سیاہ بالوں والی ایک دراز قد نوجوان اور خوبصورت عورت کھڑی مجھے گھور رہی تھی۔ وہ پلکیں نہیں جھپکا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں مقناطیسی کشش تھی۔ اس کے حسین چہرے سے میری نگاہیں نہیں ہٹ رہی تھیں، میں بت بنا اسے تک رہا تھا۔ اس نے سانپ کی پھنکار نما آواز میں مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ’’تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ تو بہتر ہے۔‘‘
میرے منہ سے جیسے اپنے آپ نکل گیا ’’تم۔۔۔ تم کون ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’میں ناگن ہون۔ اس نے میرے نر کو مارا ہے۔ میں اسے تڑپا تڑپا کر مار نا چاہتی ہوں۔‘‘
میں حیرت سے اس حسین عور ت کو تک رہا تھا جو اپنے آپ کو ناگن کہہ رہی تھی میں نے کہا ’’میں اس نوجوان کی جان بچانے یہاں آیا ہوں۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں۔ اس کو معاف کردو۔‘‘
حسین ناگن کے منہ سے ایک غضبناک پھنکار نکلی۔ وہ زمین سے اوپر کو اچھلی اور پھر سے غائب ہوگئی اور ایک سیاہ ناگ چھت کی جانب سے چار پائی پر لیٹ ہوئے نوجوان کی چھاتی پر ٹھپ سے گرا۔ مگر اس سے پہلے کے سانپ اسے ڈسے میں نے لپک کر سانپ کو گردن سے دبوچ لیا۔ سانپ کی سرخ آنکھیں باہر کو ابل آئیں جیسے وہ میرے شکنجے سے نکلنے کے لئے اپنا زور لگارہا ہو۔ مگر وہ میری گرفت سے نہیں نکل سکتا تھا۔ میں اسے چھوڑنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتا تھا اور میں اسے ہلاک بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ ایک حسین صورت ناگن ہے میں نے گوسوامی کے ماتا پتا کو آواز دی۔ وہ بھاگے بھاگے کوٹھری میں آئے۔ میرے ہاتھ میں سانپ دیکھ کر خوشی سے ان کی چیخ نکل گئی۔ میں نے کہا کہ سانپ کو میں نے قابومیں کرلیا ہے۔ اب تمہارے بچے کو کوئی ناگن ڈسنے نہیں آئے گی۔ دونوں میاں بیوی میرے قدموں پر گرگئے۔ وہ سانپ کو مار ڈالنے کے لئے کہہ رہے تھے۔ لیکن میں سانپ کو لے کر وہاں سے چلا آیا۔ اپنے مکان میں آکر میں نے سانپ کو مٹی کے مٹکے میں ڈال کر اس کا منہ بند کرکے اوپر مٹی کا لیپ کردیا۔ میں جانتا تھا کہ سانپ اور خاص طور پر ایسا سانپ جس میں انسانی روپ دھارنے کی شکتی آچکی ہو۔ ہوا کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ مجھے ایک ہی ڈر تھا کہ ناگن مٹکا توڑ کر باہر نہ نکل آئے مگر ایس انہ ہوا۔ پندرہ دن گزرگئے۔ اس عرصے میں مَیں نے کافی اشرفیاں جمع کرلیں اور ایک روز اندلس کی طرف جانے والے بادبانی جہاز میں سوار ہوگیا۔ مٹکا جس میں سانپ یعنی ناگن بند تھی، میرے ساتھ تھا میرا ارادہ بیچ سمندر میں مٹکا پھینکنے کا تھا تاکہ یہ ناگن دوبارہ ہندوستان کے ساحل تک نہ پہنچ سکے۔(جاری ہے)