کرکٹ ٹیم دفاع کرکے ہار گئی، کپتان وزیراعظم جارحانہ اننگ کھیل رہے ہیں 

  کرکٹ ٹیم دفاع کرکے ہار گئی، کپتان وزیراعظم جارحانہ اننگ کھیل رہے ہیں 
  کرکٹ ٹیم دفاع کرکے ہار گئی، کپتان وزیراعظم جارحانہ اننگ کھیل رہے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈکپ جیتنے کی سالگرہ پرجوش طریقے سے منائی اور 1992ء کی فتح  کے بعد ملنے والی ٹرافی کو ڈریسنگ روم میں لا کر یاد تازہ کی۔ عالمی سطح پر یہ واحد فتح تھی۔ اس ٹیم کے کپتان خود عمران خان تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ سربراہ رمیض راجہ بھی اس ٹیم کے رکن تھے۔ وسیم اکرم، جاوید میاں داد اور انضمام الحق جیسے کھلاڑی بھی شامل تھے۔ بورڈ کی طرف سے یہ اہتمام کیا گیا، مبارک،سلامت بھی ہوئی لیکن یہ سب خوشی آسٹریلیا ٹیم کے ہاتھوں ماند پڑ گئی۔ اس ٹیم نے بہترین کھیل اور حکمت عملی کے بدولت پاکستان کرکٹ ٹیم کو 115رنز کے فرق سے یہ ٹیسٹ میچ ہرا دیا، جو تیسرا اور آخری تھا، پہلے دونوں ٹیسٹ برابر رہے تھے۔ یوں اس فتح کے ساتھ ہی یہ سیریز بھی آسٹریلیا کے نام رہی۔


فتح و شکست کھیل کا حصہ ہے۔ تاہم کھیل یادگار ہو تو ہار پر بھی داد ملتی ہے۔ لیکن اگر آپ مقابلہ بھی نہ کر سکیں تو دکھ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے شاہینوں نے کراچی ٹیسٹ برابر کر لیا تھا تو ان کو داد ملی تھی، لیکن لاہور ٹیسٹ میں ایسی شکست دکھ کا  باعث بنی۔ جیت کی تمنا ہی نہیں تھی اور میچ پھر سے ”ڈرا“ کرنا مقصد بنا لیا تھا۔ یوں دفاعی کھیل نے بھی مایوس کیا کہتے ہیں ”جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے“ لیکن یہاں تو سج دھج نظر ہی نہیں آئی۔
کرکٹ کے کھیل اور وکٹوں کی کیفیت کے حوالے سے یہ درست کہ کراچی اور لاہور کی وکٹوں کو غیر معیار قرار دیا گیا اور یہ بھی درست کہ ہر دو میچوں میں ٹاس کی بڑی اہمیت تھی۔ پہلے ٹیسٹ کا ٹاس بابر اعظم کے نام رہا، تاہم آسٹریلیا نے اپنی حکمت عملی اور اہلیت کا مظاہرہ کیا تھا، جب دوسرے ٹیسٹ میں ٹاس آسٹریلیا کے حصے آیا اور پہلی اننگ میں شاہین صرف 148رنز بنا سکی تو شکست نظر آنے لگی تھی، تاہم دوسری اننگ میں شاہین ڈٹ گئے اور مہارت کا مظاہرہ کرکے میچ بچا لیا تھا جبکہ لاہور میں ایسا نہ ہو سکا۔
میرے ایک ساتھی نے پوچھا کہ لاہور ٹیسٹ کا نتیجہ کیا ہوگا تو عرض کیا تھا کہ چوتھی اننگ کھیلنا بہت مشکل ہوگا اور ٹاس نے یہ فیصلہ آسٹریلیا کے حق میں کیا کہ باری پاکستان ٹیم کی ہوگی۔ یہ لاہور کی وکٹ کے سابقہ تجربے کے حوالے سے کہا تھا، اگرچہ دنیائے کرکٹ کی تمام وکٹوں پر چوتھی اننگ مشکل شمار ہوتی ہے، لیکن لاہور کی وکٹ کمال ہے جو چوتھے دن کے آخری سیشن میں زیادہ ٹرن لینا شروع کر دیتی ہے اور بیٹنگ مشکل ہوتی ہے، چہ جائیکہ پانچویں دن والی ٹوٹ پھوٹ ہو۔ یہ امر اگر ہم جیسے شائقین پر واضح تھا تو اس کا اندازہ کرکٹ بورڈ، ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کو بھی تو ہوگا، لہٰذا حکمت عملی اسی کے مطابق بنانا چاہیے تھی۔


کپتان عمران خان جارحیت کے حامی ہیں اور وہ کرکٹ میں اسی پر عمل کرتے تھے۔ رمیض راجہ کو انہی نے چیئرمین بورڈ بنایا اور یہ چیئرمیں خود بھی عمران والی ٹیم کا حصہ رہے ہیں، اس لئے ان کو ہدایت تو کرنا چاہیے تھی، شائقین کرکٹ خصوصاً لاہوریوں کا خیال ہے کہ اگر ہماری ٹیم لڑ کر ہارتی تو اتنا غم نہ ہوتا، لیکن یہاں تو کوشش ہی دفاع کی کی گئی۔ درمیان میں چند شاٹس کا مظاہرہ بھی کام نہ آیا، حکمت کے تحت ہلکا رولر لیا گیا اور رات والے کھلاڑی بھی کریز پر تھے، لیکن حکمت عملی اور جیت کا عزم نظر نہیں آیا، اسی کی وجہ سے کہ آسٹریلیا ٹیم کی فیلڈنگ بلے بازوں کے سر پر رہی اور وہ اس فیلڈ کو کھولنے پر مجبور نہ کر سکے۔ بہرحال اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ را صلوٰۃ آئندہ را احتیاط!
یہ تو کرکٹ کا حال ہوا۔ 1992ء ٹیم کے کپتان اور اب وزیراعظم عمران خان بھی سیاست کے کھیل میں مصروف ہیں، فرق اتنا ہے کہ وہ اپنے مزاج اور اعلان کے مطابق ”جارح“ کا کردار اپنائے ہوئے ہیں اور سیاست کو بھی اپنے کھیل ہی کے انداز سے جیتنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اس کے لئے عوامی جذبات ابھارنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ گزشتہ روز (ہفتہ) انہوں نے کمالیہ میں خطاب کیا اور آج (اتوار) پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد کا انتخاب کر چکے ہیں اور ان کا اعلان ہے کہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوگا، ابھی تک ان کے جلسے اچھے ہوئے ہیں اور اسلام آباد کے جلسے کا انتظام بھی بہتر ہے کہ ان کی طرف سے پورے ملک کو آواز دی گئی اور بقول وزراء کرام تحریک انصاف والوں کے قافلے چل پڑے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کچھ عرصہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ان کو نکالا تو وہ آرام سے نہیں بیٹھے گے اور پہلے سے زیادہ خطرناک ہوں گے، اس حوالے سے بہت کچھ کہا گیا، گفتنی ناگفتنی باتیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں کہ خان صاحب کا جلسوں میں مزاج حزب اقتدار کا نہیں حزب اختلاف کا ہے اور وہ ان دنوں اپنے کنٹینر کے دور کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔
متحدہ حزب اختلاف کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی۔ سپیکر نے دو روزہ تاخیر کے بعد اجلاس بلایا اور کل (پیر) تک ملتوی بھی کر دیا جس پر اپوزیشن کو اعتراض ہوا۔ اس کے علاوہ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ سپیکر اسد قیصر نے اس عہدہ کی عظمت کو رسوا کر دیا ہے کہ وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا تو کجا، تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں، اس سلسلے میں حزب اختلاف نے اپنے وکلاء کو بھی ٹاسک دیا ہے کہ وہ قانونی کارروائی کے آپشن کو بروئے کار لائیں۔
یہ سب اپنی جگہ، میں گزشتہ کالموں میں بہت کچھ عرض کر چکا اور یہ اپیل بھی کہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، اس لئے امن کا برقرار رہنا ضروری ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا اور خدشہ ہے کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو، آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے تحریک انصاف کے قافلے 27مارچ کے لئے روانہ ہیں تو پی ڈی ایم والوں کے حامی بھی چل پڑے ہیں۔ یہ سب 28مارچ کو اسلام آباد پہنچیں گے۔ پہلے پروگرام کے مطابق یہ سب 26مارچ کو ہونا تھا۔ پھر اسی طرح تاریخ تبدیل کی گئی جیسے 23کو 26کیا گیا تھا، اب ان کا جلسہ 28کو ہونا ہے۔
اس کے لئے تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔ انتظامیہ نے 26مارچ کے جلسے کے لئے 11-H گراؤنڈ میں اجتماع کی اجازت دے دی تھی، اس میں ترمیم کے لئے درخواست دے دی گئی، جمعیت علماء اسلام نے اعلان کیا کہ جلسہ سری نگر ہائی ویز پر ہوگا اور ہائی ویز پر سٹیج بھی بنانا شروع کر دی گئی۔ اسلام آباد انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ بقول وزیر داخلہ شیخ رشید عدالت نے انتظامیہ کو اختیار دیا تھا، انتظامیہ نے سری نگر ہائی ویز کی اجازت نہیں دی اور جلسے کے لئے دیا گیا این او سی بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ انتظامیہ نے جو وزیرداخلہ کے ماتحت ہے۔ تحریک انصاف کو کسی استفسار کے بغیر فوراً ہی پریڈ گراؤنڈ الاٹ کر دی اور پی ڈی ایم کی شاہراہ دستور پر جلسہ کے انعقاد کی درخواست منظور نہ کی اور از خود 11-H کی اجازت دے دی جو پی ڈی ایم نے منظور نہ کی اور جلسے کے لئے سری نگر ہائی ویز کا انتظام کر لیا۔ اب یہ تنازع ہے اور وزیر داخلہ نے سارا بوجھ انتظامیہ پر منتقل کرکے یہ بھی کہہ دیا کہ 15ہزار سے زیادہ سیکیورٹی والے افراد کی ڈیوٹی ہوگی اور بقول ان کے قانون کی خلاف ورزی پر ایکشن ہوگا، یوں حالات کا رخ کسی اور طرف ہے۔
وزیراعظم اپنے مزاج کے مطابق تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے اور متحدہ حزب اختلاف کا مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے چلے آ رہے ہیں اور وہ عام جلسوں میں بھی بعض ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہیں جن پر تبصرہ کرنے سے ہمارے تو پَر جلیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -