پروفیسروں کے ”ترقیاتی“ مقالے
”اب آپ کے پیش نظر کا کیا کام ہیں“۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر غازی میری طرف دیکھنے لگے۔ انہی کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ مکمل ہوئی تو اب وہ میرا آئندہ لائحہ عمل پوچھ رہے تھے۔ ”جی! باقی کاموں کے ساتھ ساتھ ہر سہ ماہی میں ایک تحقیقی مقالہ تیار کروں گا“۔ موصوف دونوں ہاتھ گردن کی پشت پر رکھ کر ایک دو لحظے مجھے ناقدانہ انداز میں دیکھتے رہے، پھر بولے: ”تین مہینے میں کس طرح کا تحقیقی مقالہ تیار کریں گے؟“ ذرا مسکرا کر بولے: "لگتا ہے کوئی نئے تحقیقی اسالیب متعارف کرا رہے ہیں آپ، یاد رکھیے! چھ ماہ سے کم مدت میں تیار کسی شے کو تحقیق تو کہا ہی نہیں جاتا، اور یہ کم از کم مدت بتا رہا ہوں۔" عرض کیا: "جناب آج کل ترقی کے لئے ایسے ہی لگے بندھے تحقیقی مقالے درکار ہوتے ہیں۔”ہلکا سا روایتی قہقہہ لگا کر بولے:تو یوں کہیے نا کہ تحقیقی نہیں ترقیاتی مقالے آپ کے پیش نظر ہیں“۔
اب نوحہ کہاں سے شروع کروں۔ ملک میں گنتی کی کوئی ڈیڑھ درجن جامعات ہوا کرتی تھیں، لیکن بیشتر کے دائمی نقش آج بھی تعلیم اور تعلم پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں 30 ضخیم جلدوں پر مشتمل ڈاکٹر سید عبداللہ انسائیکلوپیڈیا ”دائرہ معارف اسلامیہ“ سماجی علوم کے محققین کے لئے قندیل راہ بنا چھوڑ گئے ہیں۔ یہ انسائیکلوپیڈیا اب بھی پنجاب یونیورسٹی کی شناخت ہے۔کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف وتالیف نے وہ وہ گنج ہائے گراں مایہ تخلیق کیے کہ خاصا وقت گزرنے کے باوجود محققین ان سے آج بھی بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ ادارہ تحقیقات اسلامی کی بیشتر تحقیق تو دور وزارت کی ہے، لیکن اسلامی یونیورسٹی سے الحاق کے بعد بھی اس کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا رہا۔ڈاکٹر غازی صاحب کے کوئی آٹھ سالہ جزوی دور میں شریعہ اکیڈمی کی کتب سو سے زیادہ چھپیں جو محققین کے لئے بطور حوالہ کام کرتی ہیں۔ ڈاکٹر انیس کی دعوہ اکیڈمی نے متعدد زبانوں میں سینکڑوں ایسی کتب تیار کیں، جن کے معاشرے پر گہرے نقش ہیں۔
1999ء میں آئین شکنی کیا ہوئی، دیکھ لیجئے! ہر شعبہ زندگی ادھڑے دیار کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جامعات کا نگران ادارہ، ہائر ایجوکیشن کمیشن کچھ ایسے خطوط پر استوار کیا گیا کہ حلوائی کی دکان پر دادا جان کی فاتحہ کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ اب کون سے ڈاکٹر سید عبداللہ؟ کیسے ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی, ڈاکٹر انیس اور ڈاکٹر غازی؟ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اچھے بھلے کام کرتے یونیورسٹی اساتذہ ان کو ان کے اصل کام چھڑوا کر نا معقول "ترقیاتی" مقالوں کے تعاقب میں لگا دیا۔ پانچ دس صفحات کے مقالے پر بسا اوقات آپ آٹھ دس ”محققین“ کے نام دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ”تحقیق“ ہر استاد کے نامہ اعمال میں ایک تحقیقی مقالے کا اضافہ شمار ہوتا ہے۔ یوں وہ تیز رفتار اور پائدار ترقی کی منزلیں طے کر کے پروفیسر بن جاتا ہے۔
رہے اصل کام کرنے والے مجنون سودائی اور سر پھرے پروفیسر تو ان کی ترقی ”ترقیاتی“ مقالوں کے بغیر ناممکن ہو کر رہ گئی ہے۔گجرات یونیورسٹی کے ایسے ہی ایک مفتون کو کہیں سے سن گن ملی کہ بلیکس لا ڈکشنری کے ترجمے میں کچھ میرا بھی حصہ ہے تو "سرپرستی" کے نام پر اس نے مجھے گھیر لیا. اس کا کام دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ ڈاکٹر غلام علی گجرات اور قرب و جوار سے درجنوں اہل افراد کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر، انہیں تربیت دے کر دن بھر ہی نہیں تین شفٹوں میں ان سے کام لے رہے تھے۔ دو تین دفعہ میں نے وہاں رات بھر جاگ کر ”قیام“ کیا۔ لگتا تھا جی ایچ کیو کا وار روم ہے جہاں دشمن سے مقابلہ کی سی کیفیت ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ بیس پچیس ہزار صفحات پر مشتمل پنجاب کے سینکڑوں قوانین کو اصول ترجمہ کے چھ درجوں سے گزار کر یہ جونیئر استاد پنجاب حکومت کے حوالے کر چکا ہے۔ چھ پروفیسروں کے دس صفحات نہیں، غور سے پڑھئے، پچیس ہزار صفحات!
اور جنونی انداز کار ملاحظہ ہو: ”سر مسودہ آپ کی نظر ثانی کے لیے تیار ہے۔ گجرات بائی پاس سے آپ کے گزرنے پر میرا آدمی رات سوا نو بجے آپ کو مسودہ دے دے گا۔ ڈاکٹر صاحب پلیز! اسلام آباد جا کر تین چار دنوں میں اسے دیکھ لیجئے: اسی جگہ سے وہی آدمی آپ سے مسودہ واپس لے گا“: ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر غلام علی آپ کا کام تو پروفیسروں سے بڑھ کر ہے۔ آپ اب تک اسسٹنٹ پروفیسر کیوں ہیں۔ ”سر! تحقیقی مقالے پورے نہیں ہیں۔ سر! پیپر پورے کرنے کے لئے اتنا وقت کہاں؟ ہو جائیں گے کبھی, ہاں! یہ دیکھئے سر اس مسودے میں مترجم نے برات ہمزہ کے بغیر لکھا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟”یہ کہہ کر وہ سوختہ جگر میری ترقیاتی باتیں نظر انداز کر کے اپنے سودائے خاص کی طرف متوجہ ہو گیا۔
ایچ ای سی نے وہ ناقابل فہم پالیسی متعارف کرائی ہے کہ جم کر ٹھوس موضوعات پر لکھی گئی کتاب بھی استاد کی ترقی میں کوئی کام نہیں آتی۔ چاہے اس کا ترجمہ متعدد زبانوں میں ہو جائے۔ حد تو یہ ہے کہ ترقی کے لئے جامعات یہ بھی پوچھتی ہیں کہ استاد نے (کشکول اٹھا کر) مالی امداد کتنی حاصل کی۔ غیر ممالک اور این جی او سے تحقیق کے نام پر ملنے والی اس خطیر رقم سے جامعات میں اور دیگر شہروں میں جا کر کانفرنسیں اور سیمینار ہوتے ہیں۔ وائس چانسلر، ڈین اور صدر شعبہ مہمان خصوصی ہوتے ہیں، پلاؤ کھائیں گے احباب، تحقیق کا فاتحہ ہوگا۔ کی گئی افلاطونی تقاریر سے ”تحقیقی“ مقالے تیار ہوتے ہیں اور استاد کی ترقی ہو جاتی ہے۔
یہ بیرونی ادارے جامعات کو دو مقاصد کے لئے اندھا دھند گرانٹ دیتے ہیں: تعلیمی جاسوسی (Academic Espionage) ان کا پہلا مقصد ہوتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کو اپنے فکر و فلسفے کے مطابق استوار کرنے کی خاطر مغربی ممالک کو طرح طرح کے اعداد و شمار اور معلومات کی مختلف شکلیں درکار ہوتی ہیں جن سے وہ ہماری پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی حکمت عملی بنا تے ہیں۔تحقیق، سروے اور میل جول کے ذریعے کے یہ مغربی ممالک ہر سطح پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔ ان ممالک کا دوسرا مقصد ذہین اور محنتی اساتذہ کو اصل کام سے ہٹا کر بے مقصد مشاغل میں لگانا ہوتا ہے۔ آج بلھے شاہ کانفرنس، تو کل شاہ ہمدان کانفرنس، پھر ایک سمینار تصوف پر۔ آپ نے کسی یونیورسٹی میں اس پیٹر ہگز پر کبھی کوئی سیمینار ہوتے دیکھا جس کے تصور گاڈ پارٹیکل نے طبعیات کی دنیا میں بھونچال برپا کر رکھا ہے۔ کبھی آپ نے فزیکل سائنسز پر اعلیٰ پائے کی کوئی کانفرنس کسی یونیورسٹی میں ہوتے دیکھی؟ نہ ان کاموں کے لئے گرانٹ ملتی ہے اور نہ کوئی مغربی ملک دیگر تعاون کرتا ہے، ماسوائے پاکستان کے ابتدائی ایام کے کہ جب بعض ممالک نے ہماری جامعات کے ساتھ بلاشبہ تعاون کیا۔ اب تو فزکس کے چند شعبوں میں پاکستانی طلبہ کو برطانوی اور بعض مغربی یونیورسٹیوں میں داخلہ بھی نہیں دیا جاتا۔
موجودہ چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر طارق بنوری کے ایک حالیہ انٹرویو سے مجھے اندازہ ہوا کہ انہیں ان مذکورہ مسائل کا خوب ادراک ہے، لیکن ان کے پاس مہلت عمل نہایت کم ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اساتذہ کی ترقی کا موجودہ غیر معقول طریقہ ختم کر وہ کوئی ایسا اسلوب متعارف کرائیں گے جو اساتذہ کو اصل ملکی اور معاشرتی مسائل سے جوڑ کر ان کا حل تلاش کرنے پر راغب کرے۔ فزیکل سائنسز کی مدد سے صنعتی ترقی بلاشبہ ملک کی ضرورت ہے لیکن سماجی علوم انسان کو انسان کے درجے پر رکھتے ہیں۔ ان دونوں میں توازن ضروری ہے۔ امید ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ان امور پر توجہ کرے گا۔