سیاسی مخاصمت بھرا ماہِ رمضان! مجھے کچھ کہنا ہے!
ہر کھیل یا جنگ کی طرح سیاست میں بھی حربے اور حملے اختیار کئیے جاتے ہیں۔ یہ تمام حرکات سیاسی حریفوں کو زیر کرنے کے لئیے اور اپنے اہداف کے حصول کے لئیے استعمال ہوتی ہیں۔ مگر جیسے کھیل وضع کردہ قوائد اور مخصوص میدان کی طے شدہ حدود میں کھیلا جاتا ہے، سیاست بھی ان اصولوں کے تابع ہوتی ہے۔ اگر یہ ماورائے حدود و قیود کھیلی جائے تو قابلِ سرزنش اور بعد ازاں قابلِ دست اندازی فعل بن جاتی ہے۔
اصول پرست اور وضع دار سیاستدان ان اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں، زیرک و چالاک نظر بچا کر ایک آدھ خلاف ورزی کر لیتے ہیں اور تیسری قسم کے سیاستدان بے شرمی سے حصولِ اہداف و اقتدار کی چاہِ بے لگام میں قوانین و قیود اور اخلاقیات و احتیاط کو روندتے ہوئے اور روند مارتے ہوئے بہت نچلی سطح پہ گر جاتے ہیں۔ پہ گراوٹ معاشرے اور ریاست کو نقصان پہنچاتی ہے۔
ماضی قریب میں قائدِ اعظم جیسے با اصول سیاستدان ہمارے رہنماؤں کے لئیے ایک روشن مثال ہیں۔ کہانی سنائی جاتی ہے کہ جب پاکستان کی جدوجہد عروج پر تھی تو ایک مسلمان ڈپٹی سیکرٹری سرکاری فائل میں سے ایک نہایت اہم خبر نکال کر قائدِ اعظم کے پاس پہنچے اور انہیں اس سے آگاہ کیا۔ قائدِ اعظم نے بات سنی اور یہ جاننے کہ باوجود کہ یہ خبر انکو سیاسی فائدہ دے سکتی تھی، اس افسر کو آئندہ ایسا کام کرنے سے منع کیا جو کہ اسکے منصب کے منافی تھا۔ یہ ایک ہدایت تھی، تربیت تھی کہ جو افسر آج انکے لئیے یہ کام کر سکتا ہے وہ کل کسی اور کے کئیے بھی یہ کر سکتا ہے۔ مگر خال خال ہی اس مثال کی تقلید کی جاتی ہے۔ اور آج تو سب اسکے برعکس ہو رہا ہے۔
سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر امیر خرم راٹھور کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تعینات کیے جانے کے بمشکل ایک سال بعد واپس بلایا جا رہا ہے۔ جو وجوہات بیان کی جا رہی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بطور سفیرِ پاکستان اس دورِ حکومت میں بھی اپوزیشن پارٹی کے چئیرمین عمران خان کے روابط سعودی فرمانروا کے ساتھ بحال کروانے میں کوشاں تھے۔ دوسرا الزام سننے میں آیا ہے کہ سعودی عرب نے وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کو ادھار پٹرول بھیجنے کا و عدہ کیا تھا مگر یہ سفیر صاحب یہ فائل دبا کر بیٹھ گئے اور ڈھائی ماہ اسکو سعودی حکام تک نہ پہنچایا۔ دروغ بر گردنِ راوی۔ ان حرکات پر انہیں واپس بلایا جا رہا ہے۔ ان کو سعودی عرب میں بطورِ سفیر 2021 میں تعینات کیا گیا تھا جب انکو کینیڈا میں سفیر تعینات ہوئے ایک ماہ ہی گزرا تھا اور سعودی عرب میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) بلال اکبر کی بطور سفیر تقرری کو بمشکل سات ماہ گزرے تھے۔
خرم راٹھور وزارتِ خارجہ کے ملازم ہونے کے باوجود نہ صرف سیاسی پارٹی کے سرگرم پیروکار ہیں بلکہ حکومت اور ریاست مخالف مفادات کے تحفظ کے لئیے سالہا سال سے سرگرم تھے۔وہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں اور کچھ سال قبل سرکاری ملازمت سے چھٹی لے کر ایک سال تک پی ٹی آئی کے دفتر میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ پی ٹی آئی نے لاہور میں ایک تھنک ٹینک قائم کیا اور راٹھور نے 2012 سے 2013 تک وہاں خدمات انجام دیں۔ حیرت ہے کہ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود کسی نے انکو سرکار کی نوکری کے قوائد کی صریحاً خلاف ورزی پہ نہ تو سرزنش کی اور نہ ہی تادیبی کاروائی کی۔
یوں معلوم ہو رہا ہے کہ عمران خان اندرونی مصالحت کی بجائے بیرونی طاقتوں اور ممالک سے قربت کے خواہاں ہیں تاکہ وہ کسی طرح انکی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کر سکیں۔ اب تو امریکی غلامی کے نعرے سے کنارہ کشی کر کے امریکی خوشنودی کے لئیے کوشاں ہیں۔ پی ٹی آئی نے ایک امریکی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کیں ہیں تاکہ وہ عمران خان کی امریکی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بحال کر سکے۔ افغان امریکی سفارتکار رمزے خلیل زاد کے قابلِ اعتراض ٹویٹ اسی لابنگ کا نتیجہ سمجھے جا رہے ہیں۔ اس کام کے لئیے پی ٹی آئی اس فرم کو پچیس ھزار امریکی ڈالر یعنی تقریبا 70 لاکھ پاکستانی روپے ماہانہ ادا کر رہی ہے۔ کاش یہ پیسے سیلاب زدگان اور مہنگائی کے مارے پاکستانی عوام کے لئیے استعمال کئیے جاتے۔
اندرونِ ملک بھی امریکی اور یورپی سفرا کی کاسہ لیسی جاری ہے۔ حال ہی میں شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں یورپی یونین کے سفیروں سے آسٹریا کے سفیر کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ان کے بیٹے زین قریشی اور پارٹی جنرل سیکرٹری اسد عمر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ شیریں مزاری بھی حکومتِ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں اور پاکستان کے خلاف خطوط لکھ رہی ہیں۔ خاص طور پر پاک فوج اور سپاہ سالار کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اندرونِ ملک عمران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح دھمکیوں اور دھونس کا استعمال مناسب سمجھ رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے ہی خبردار کیا تھا کہ اگر ان پر فلمی اداکارہ سٹورمی ڈینیئلز کو ان کے ساتھ قابلِ اعتراض تعلقات کا معاملہ چھپانے کے لیے مبینہ طور پر رقوم کی ادائیگی سے متعلق مجرمانہ مقدمے میں فرد جرم عائد کی جاتی ہے تو“ممکنہ موت اور تباہی" کو نہیں روکا جا سکتا۔ عمران خان پر بھی عدالت میں انکی مبینہ بیٹی ٹیرین کے بارے میں کیس چل رہا ہے اور وہ پرْتشدد مزاحمت کر رہے ہیں۔ لاہور میں جب پولیس انکی گرفتاری کے لئیے گئی تو اس پر انکے حواریوں نے پٹرول بموں سے حملہ کیا۔ پتھراو اور پٹرول بم حملے انکی رہائشگاہ کے اندر سے کئیے گئے۔ اس میں کالعدم دہشت گرد تنظیم کے کچھ افراد کی تصاویر اور رپورٹس سامنے آئیں۔ اسی طرح اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں جتھوں نے توڑ پھوڑ کی اور پولیس پر تشدد کیا۔
یہ طریقہ کار ملک کو انتشار کا شکار کر رہا ہے۔ عوام حکومتی نرمی پر معترض ہیں۔ عدالتوں کے کردار پر بھی سوال کئیے جا رہے ہیں۔اب حکومت نے سختی سے قانون کے اطلاق کا فیصلہ کر لیا ہے۔ قانون شکنی کرنے والے پیروکاروں کی گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ رمضان عمران خان اور پی ٹی آئی پہ بھاری ہو گا۔ بہتر ہے بیرون ملک صلح جوئی کی کاوشوں کی طرح اندرونِ ملک بھی مہم جوئی سے پرہیز کیا جائے تو معاملات افہام و تفہیم سے طے ہو سکتے ہیں۔