اپنے نظریات کی وجہ سے انہیں ملازمت میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا مگروہ عام لوگوں کے دکھوں کا اظہار منفرد اسلوب میں کرتی رہیں

 اپنے نظریات کی وجہ سے انہیں ملازمت میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا مگروہ ...
 اپنے نظریات کی وجہ سے انہیں ملازمت میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا مگروہ عام لوگوں کے دکھوں کا اظہار منفرد اسلوب میں کرتی رہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: زاہد مسعود
 قسط:7
اس کتاب میں شامل نظمیںبراہ راست عوامی اظہار کی نظمیں ہیں اور پنجاب کے عوام جوکہ آمریت کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے ان نظموں کو بجاطور پر اپنی آواز سمجھنے لگے اور اسی حوالے سے نسرین انجم بھٹی ان کی پسندیدہ شاعرہ کے طور پر سامنے آئیں خاص طور پر نسرین انجم بھٹی کی نظموں کی یہ لائنیں ایسی تھیں کہ اس دور کے دیگر شعراءکے لیے یہ شاعری کا یہ اسلوب ایک نمائندہ اسلوب قرار پایا اور بہت سی آوازیں نسرین انجم بھٹی کی ہم آواز ہوئیں۔ 
نسرین انجم بھٹی کی شناخت اگرچہ ان کے عمل اور ان کے فکر کی بناءپر پہلے ہی مستحکم ہو چکی تھی مگر” نیل کرائیاں نیلکاں“ نے ان کے منفرد اسلوب اور انداز کو امر حیثیت دی اور ”یوں نیل کرائیاں نیلکاں“ پاکستان اور خاص طور پر پنجابی شاعری کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کر گئی۔
میرے ذاتی خیال میں نسرین ایک دیانتدار دانشور تھیں اور ان کے قول اور فعل میں ذرا بھر بھی تضاد نہ تھا۔ ان کے خیالات اور ان کی عملی جدوجہد دونوں میں کوئی شبہ نہیں۔ اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے اگرچہ انہیں ملازمت میں کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی اور نہایت ثابت قدمی سے عام لوگوں کے دکھوں کا اظہار اپنے منفرد اسلوب میں کرتی رہیں۔ یہ رویہ ہماری سوسائٹی میں اگرچہ بہت کم ہے مگر اپنا مقام رکھتا ہے۔ لوگ خاص طور پر عام لوگ ایسے لوگوں کو جو ان سے وابستہ ہوں اور دیانتداری اور ثابت قدمی سے اظہارِ خیال کرتے ہوں پسند کرتے ہیں۔ حبیب جالب اس کی ایک اور مثال تھے لوگ ان کو بھی اس طرح پیار کرتے تھے اور جب لوگوں کو یہ پتہ چلتا کہ ان لوگوں نے محض عوام کے لیے اپنے آرام و سکون اور مقام و مرتبہ کی پرواہ نہ کی تو لوگ اور زیادہ ان سے پیار کرتے تھے اور ذاتی زندگی میں ان کو اپنا راہنما اور آئیڈیل خیال کرتے تھے۔ 
نسرین انجم بھٹی اگرچہ کوئی متمول خاتون نہ تھیں مگر بہت سے ایسے لوگوں سے زیادہ معتبر تھیں جو انہی کے دور میں ان جیسے خیالات کا اظہار تو کرتے تھے مگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے روابط زیادہ تھے اور ان کا اپنا عمل ان کے خیالات سے کسی حد تک متضاد تھا، لیکن نسرین جیسے شاعروں نے جو عوام لوگوں کی محبت حاصل کی وہ لوگ اس طرح حاصل نہ کر سکے۔ 
پنجابی شاعری میں اگرچہ عورت کو زیادہ بولڈ ہو کر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرنے کی اجازت نہ تھی مگر اس حوالے سے بھی نسرین نے عورتوں کو ہمت اور حوصلہ عطا کیا اور ان کے دیکھا دیکھی مردانہ معاشرے میں دیگر عورتوں نے بھی اپنی آواز بلند کرنی شروع کی اور 80ءکی دہائی تک 10 سالوں میں ہی عورتوں کے حقوق کی جدوجہد ایک عملی شکل اختیار کر گئی۔ اس جدوجہد کو آگے بڑھانے میں نسرین انجم بھٹی کی پنجابی شاعری اور ان کے باہمت انداز کا بہت دخل ہے کیونکہ یہ وہ نمائندہ خاتون تھیں جو کہتی تھیں وہ کرتی بھی تھیں اور یہی حقیقت ان کی کہی ہوئی بات کو معتبر بناتی تھی۔ 
”اٹّھے پہرتراہ“ نسرین انجم بھٹی کا ان کی زندگی میں شائع ہونے والا دوسرا پنجابی مجموعہ کلام تھا۔ اس میں اگرچہ انہی باتوں کا تسلسل تھا ”جونیل کرائیاں نیلکاں“ میں کہی گئی تھیں مگر اُٹھے پہرتراہ کا زمانہ مختلف تھا اور اس میں شامل نظمیں اپنے عہد کی نمائندہ تخلیقی نظمیں تھیں۔ ”اٹھے پہر تراہ“ میں شامل نظموں میں کچھ نظمیں تو زبان زِدعام ہو چکی تھیں کیوں کہ ان کے موضوعات اور شعری ٹریٹمنٹ سراسر عوامی تھا لہٰذا یہ کتاب بھی اس حوالے سے معروف ہوئی۔ اس کتاب کی اشاعت تک نسرین انجم بھٹی ایک مستند شاعرہ کے طور پر اپنا آپ منوا چکی تھیں چنانچہ اس کتاب کو اس تناظر میں بھی دیکھا گیا۔ ”اٹھے پہر تراہ“ میں شامل نظمیں فنی طور پر انتہائی مضبوط ہیں اور ان میں نسرین کا وضع کردہ اسلوب اپنی پوری توانائی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ 
( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -