یونانی فکر کے زوال کی آخری منزل 

 یونانی فکر کے زوال کی آخری منزل 
 یونانی فکر کے زوال کی آخری منزل 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:لطیف جاوید
قسط:27
نو فلاطونیت کا پہلا معلم اور مبلغ امونیس ساکاس (Ammonius Saccas) تھا ،جو اسکندریہ میں فلسفہ کے نام پر تعلیم دیا کرتا تھا۔اِس نے نہ اپنے خیالات کبھی قلمبند کئے اور نہ اپنے شاگردوں کو کرنے دئیے۔وہ کہتا تھا کہ میرے نظریات کو صرف سینہ بہ سینہ آگے منتقل کیا جائے۔ فلاطینوس (Plotinus) بھی اِس کے شاگردوں میں شامل تھا جسے بعد میں اِس مکتبِ فکر کا بانی سمجھا گیا۔ فلاطینوس کے حالات ِ زندگی بھی اِس کے شاگرد فارفریوس سے ہم تک پہنچتے ہیں۔
۰ یہ ممکن ہے کہ پہلے فلاطینو س کے نام کی وجہ سے اِس تحریک کو نو فلا طونیت کہا گیا ہو۔ پھر افلاطون سے نام کی مناسبت کی وجہ سے اِسے افلاطون کی طرف منسوب کر دی گئی حالانکہ نظریاتی طور پر اِسے افلاطون سے کوئی واسطہ نہ تھا،جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔بعض کتب میں اِس تحریک کا نام افلاطونیت بھی ملتا ہے۔
۰ اِن لوگوں نے اصل حقائق کو مسخ کیا اور پھر سوفسطائی علماءکی طرح لفاظی اور زورِ خطابت سے اسے سچ منوایا۔اِنہوں نے کہا کہ افلاطون اور ارسطو بھی حضرتِ موسیٰؑ کے شاگرد تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت موسیٰؑ کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔ حضرت موسیٰؑ 1525 BC میں یروشلم میں گزرے ہیں جبکہ یہ فلسفی تیسری صدی ق م میں یونان میں پیدا ہوتے ہیں۔اِ ن کی کتب میں کہیں اِس بات کا ذکر نہیں ملتا۔
۰ نو فلاطونیت بنیادی طور پر صرف خدا کے موجودہونے اور اسکے کائنات سے تعلق کے مضامین پر بحث کرتی ہے۔گویا اِس تحریک کا مادہ اور توانائی کی کائنات سے کوئی تعلق نہیں صرف مذہب اور تصوف سے ہے۔خدا کے متعلق ان کا نظریہ ملاحظہ ہو۔
” فلاطینو س خدا ،عقل اور روح کی تثلیث کا قائل ہے۔مگر اس کی تثلیث عیسائیت کی تثلیث سے مختلف ہے۔وہ خدا ،عقل اور روح کو یکساں مقام نہیں دیتا بلکہ ایک مراتبی نظام کی شکل میں پیش کرتا ہے۔سب سے پہلے ذاتِ احد ہے اس کے بعد عقل ہے اور اس کے بعد روح ہے۔“ 
واضح ہو کہ اِس تحریک میں خدا کو عقل و حکمت سے بالا قرار دیا گیا۔اِن کے نزدیک خدا کی ذات کو صرف حال اور وجد انہ کیفیات سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ عقل و فہم یاادراک سے نہیں،اِس طرح فلسفیانہ فکر پر مذہب اور تصوف کو برتری دے دی گئی۔
۰ اِ سی ضمن میں پروفیسر نعیم احمد لکھتے ہیں۔
”اِس مکتب کی تعلیما ت یونانی فکر کے زوال کی آخری منزل ہیں۔ نو فلاطونیت کے بعد مدرسیّت (Scholasticism)کا دور شروع ہو جاتا ہے جس کا اِختتام نشاة ثانیہ(Renaissence) پر ہوتا ہے۔ اِس دور کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اِ س میں فلسفہ کو مذہبی عقائد کا پابند کر دیا گیا تھا یعنی آزاد تفکر کی بجائے عقلی اِستدلال کو مذہبی عقائد کے جواز تلاش کرنے کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔مدرسیّت کے دور میں فلاطینوس کی تعلیم کے اثرات نمایاں نظر آ تے ہیں۔ “
قارئین کرام نوٹ فرمائیں کہ فلسفہ کو مذہبی عقائد کا پابند کر نے والی تحریک یعنی نو فلاطونیت کو ایک فلسفیانہ تحریک کہا جاتا ہے۔نہ جانے کیوں؟
۰ بلا شبہ اِس تحریک نے فلسفہ اور سائنسی فکر کو پامال کرکے مذہب اور تصوف کے حوالے سے اِنسانی معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ، جو کافی توجہ طلب ہیں۔
 آخرمیں معذرت کیساتھ عرض کرتا ہوں کہ انسان فلسفیانہ اور منطقی شعور کی کمی کے باعث الجھے ہوئے اور عجیب و غریب خیالات کو بہت پسند کرتا ہے،ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔نو فلاطونیت کا بھی یہی معاملہ ہے ،یہ 3نظریات کو ایک جگہ اکٹھا کر رہی ہے جو کہ ناممکن ہے۔مثلاً یہ فلسفہ ، تصوف اور مذہب کو ایک دوسرے میں سمو رہی ہے ،جبکہ فلسفیانہ فکر کی بنیاد عقل پر ،تصوف کی بنیاد وجدان پر اور مذہبی فکر کی بنیادوحی و الہام پر قائم ہوتی ہے۔ عقل اور وجدان انسان کی ذاتی صلاحیتیں ہیں،یہ اِنسانی سوچیں، کیسے وحی اور الہام میں مدغم ہوگیئں،اہلِ مذہب نے اسے کیسے قبول کیا؟ اِیسے تضادات کے باوجود صدیوں اسے سچ مانا گیا اور آج بھی اس کے ہم خیال پائے جاتے ہیں ،ہے نہ عجیب بات ؟ 
( نوٹ : نو فلاطونیت کی مزید تفصیل جاننے کے لئے دیکھئے۔علی عباس جلالپوری کی کتاب روایات ِ فلسفہ ،باب نو فلاطونیت۔) ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -