جب رات کو مرکزی نائٹ کلبز بند ہو جاتے تو شہرگوروں سے بھر جاتا۔ یہ وہ گورے تھے جن کی روح سیاہ فام تھی
مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط :35
یہ تمام وہ شوہر ہوتے جو دفتر جانے سے قبل یہاں آتے تھے۔ بعض گورے شہر کے مرکزی علاقے سے ٹیکسی لیکر بھی یہاں پہنچتے تھے۔ یہ ان بیویوں سے تنگ آئے ہوئے شوہر تھے جو حاکمانہ مزاج نت نئے تقاضوں اور شکایتوں سے اپنے شوہروں کو نفسیاتی طور پر نامرد بنا دیتی تھیں اور انہیں مجبوراً طوائفوں کے پاس پناہ لینا پڑتی۔ طوائفوں کا کہنا تھا کہ جوانی کے 20 سال گزارنے کے بعد مرد عام طور پر عورت سے صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے قربت چاہتا ہے۔ چونکہ بہت ساری عورتیں یہ بات نہیں سمجھتیں جس سے مردوں کی انا مجروح ہوتی ہے مرد میں ”مردانگی“ چاہے کتنی بھی کم ہو طوائف اسے یقین دلاتی ہے کہ وہ دنیا کا بہترین مرد ہے۔ اگر بہت سی بیویاں یہ بات سمجھ لیں کہ مرد کو مرد کہلوانا سب سے زیادہ پسند ہے تو بہت سے گھر خراب ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
وہ عورتیں مجھے بہت کچھ بتاتیں۔ کالے اور گوروں کے درمیان فرق کی دلچسپ کہانیاں اور گاہکوں کی عجیب و غریب عادات گاہکوں کو تسکین طبع کے ساتھ ساتھ طوائفوں کے خیالات و احساسات جاننے کا بہت شوق ہوتا۔ یہ بات بھی مجھے ایک طوائف نے ہی بتائی کہ عورت کتنی بھی سخت ہو وہ اندر سے ہمیشہ نازک اور کمزور ہوتی ہے۔
کبھی کبھی صوفیہ بوسٹن سے آ جاتی اس کی شخصیت ہارلم کے دوسرے کالوں میں مجھے ممتاز کر دیتی۔ کالا کہیں کا بھی ہو آپ ایک گوری عورت اس کے قریب کھڑی کر دیں تو وہ فوراً کھل اٹھے گا۔ اسی طرح کالی عورت کو دیکھ کر گوروں کی آنکھ میں بھی چمک آتی ہے لیکن وہ اتنا ہوشیار ہے کہ اسے ظاہر نہیں ہونے دیتا۔
صوفیہ عام طور پر سہ پہر کی ٹرین سے سیدھی سمالز میں آ جاتی میں اس کا تعارف کرواتا اور چھٹی لے لیتا، وہ میرا طوائفوں کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی تھی لیکن جب میں نے اسے ایک دو طوائفوں سے ملوایا انہوں نے آپس میں گفتگو کی تو صوفیہ نے مجھ سے کہا کہ وہ تو بہت اچھی عورتیں ہیں۔ ہم دونوں بریڈک ہوٹل بار میں چلے جاتے وہاں اپنے موسیقار دوستوں سے ملتا وہ صوفیہ کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے”ہائے ریڈ! یہ ہمارا مہمان کون ہے؟“ مجھے کبھی صوفیہ کے لیے ایک گلاس بھی نہیں خریدنا پڑا کیونکہ شاید کالے موسیقاروں سے زیادہ گوری عورت کا پرستار دنیا میں اور کوئی کالا نہ ہو۔ شوبز کی دنیا کے لوگ عام لوگوں کے برعکس عموماً کم متعصب ہوتے ہیں۔
جب رات کو شہر کے مرکزی نائٹ کلبز بند ہو جاتے تو ہارلم گوروں سے بھر جاتا۔ یہ وہ گورے تھے جن کی روح سیاہ فام تھی اور وہ کالوں کو دیکھ کر مسحور ہو جاتے تھے۔ صرف ایک بات ایسی تھی جو گوروں کی برداشت سے باہر تھی یعنی کسی گوری کو کسی کالے کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرتے دیکھنا۔ ہارلم میں کچھ نوجوان گورے بھی آے تھے جن کو ہم”ہپیز“ کہتے تھے۔ وہ ہم کالوں سے بھی زیادہ کالوں کے طرف دار تھے۔ ان میں سے ایک تو ایسا تھا کہ ذرا سا بھی نسلی فرق کرنے پر مرنے کٹنے پر تیار ہو جاتا تھا۔ وہ ہر وقت ہمارے قریب رہنے کی کوشش کرتا۔ ہماری طرح زوٹ سوٹ پہنتا۔ بالوں میں بہت زیادہ چکنائی لگاتا تاکہ بال کونک نظر آئیں گلے میں لمبی زنجیر پہنتا غرض ہر چیز وہ کبھی کالی عورت کے علاوہ کسی کے ساتھ نظر نہیں آتا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں 2 کالی عورتوں کے ساتھ رہتا تھا پتہ نہیں وہ کیسے گزارہ کرتے تھے سیمی اس سے خواہ مخواہ چڑتا تھا۔ ایک روز صبح 3 یا 4 بجے میری اور صوفیہ کی ملاقات اس سے ہوئی وہ میری جوانا کے نشے کی وجہ سے چہک رہا تھا۔ میں نے صوفیہ سے اس کو متعارف کروایا اور کچھ لمحوں کے لیے ایک دوسرے شخص سے ملنے گیا۔ جب میں واپس آیا تو صوفیہ کے چہرے پر عجیب سا تاثر تھا بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ اس سے کہہ رہا تھا کہ” تم جیسی سفید فام اس کالے کے ساتھ کیوں اپنی زندگی برباد کر رہی ہے“۔۔۔”کرے اول بل“ جونیو اور لنیز کا رہنے والا تھا میرا دوسرا اچھا دوست بنا۔ سمالز چھوڑنے کے بعد میں اس کے ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ یہ ہوٹل ”کرے اول بل“ نے اپنے گھر میں ہی بنا رکھا تھا لیکن ماحول اور خوراک کے معیار سے یہ ہارلم میں بہترین تھا۔ وہاں ہلکی موسیقی بجتی رہتی تھی ہر طرح کے مشروبات میسر تھے۔ بل کی سیاہ فام دوست اس کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ اگر بھیڑ زیادہ ہو جاتی تو بل کھانے کے برتن باہر لے آتا اور اپنی دوست جسے وہ پیار سے ”براﺅن شوگر“ کہتا تھا، کے ساتھ گاہکوں کو ان کی میز پر جا کر ان کو پلیٹیں بھر بھر کر دیتا اور خود بھی گاہکوں کے درمیان بیٹھ کر کھانا کھاتا اس کے گاہک ہی نہیں وہ خود بھی اپنی پکائی کا شوقین تھا۔ وہ بیس بال کا پرستار تھا اور ہوٹل کی دیواروں پر میجر لیگ کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کی دستخط شدہ تصاویر آویزاں تھیں۔ اس کے علاوہ ان مشہور سیاسی اور شوبز کی شخصیات کی تصاویر بھی آویزاں تھیں جو وہاں کھانا کھا چکے تھے۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔