آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پا ک کی تفہیم
سترہویں تراویح
سورۃ الدخان……44 ویں سورت
سورۂ دخان مکی ہے، 59 آیات اور 3 رکوع ہیں، ترتیب نزول کے لحاظ سے 64 ویں سورت ہے۔ پچیسویں پارہ کے چودہویں رکوع سے سولہویں تک ہے۔سورت کا نام آیت 10 سے لفظ ”بدخان“ سے لیا گیا ہے۔قیام مکہ کے دوران جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے مکہ میں شدید قحط پڑا اور پھر ابوسفیان (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے رسول پاکؐ سے درخواست کی کہ ”اپنی قوم کو اس بلا سے نجات کے لئے دعا فرمائیں“۔ایسے وقت میں یہ سورت نازل ہوئی سورت میں مکہ والوں کو شرک اور غلط کاریوں پر تنبیہ اور فہمائش کی گئی ہے۔
فرعون کے پاس موسیٰ علیہ السلام ایک معزز رسول آئے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے عذاب سے چھٹکارا دلائیں۔ قوم فرعون کو اللہ کی سرکشی سے بچائیں ورنہ قطع تعلق کر لیں۔آخر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو راتو رات نکل جانے کا حکم دیا۔قوم فرعون مختلف عیش و آرام کی زندگی گزارتی تھی لیکن سرکشی کی وجہ سے غرق کی گئی اور اس کی جگہ دوسری قوم کو وہاں کا وارث بنایا گیا۔ان سے زیادہ زور آور قوم تھی جو سرکشی کی وجہ سے ہلاک کر دی گئی اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو کھیل کے طور پر نہیں بنایا۔
سورۃ الجاثیہ……45 ویں سورت
سورۃ جاثیہ مکی ہے، 37 آیات اور 4 رکوع ہیں۔ نزول کے اعتبار سے 65 ویں سورت ہے۔ پچیسویں پارہ کے رکوع 17 سے بیسویں رکوع تک ہے۔سورت کا نام آیت 28 کے فقرہ ”وتری کل امۃ جاثیۃ“ سے لیا گیا ہے۔یہ سورت دخان کے بعد نازل ہوئی ہے۔دونوں سورتوں میں یکساں مضمون ہے۔اس کا موضوع ”توحید و آخرت کے متعلق کفار کے شبہات و اعتراضات کا جواب“ ہے۔اے میرے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ مسلمانوں سے فرما دیں کہ وہ ان کفار سے درگزر کریں، اللہ ان کے اعمال کا بدلہ دیگا اور جو شخص بھلائی کرتا ہے تو اپنے لئے اور جو برائی کرتا ہے تو اپنے لئے کرتا ہے۔
سورۃ الاحقاف……46 ویں سورت
سورۂ احقاف مکی ہے، 35 آیات اور 4 رکوع ہیں۔ نزول کے اعتبار سے 66 ویں سورت ہے۔ چھبیسویں پارہ کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔سورت کا نام آیت 21 کے فقرہ ”اذا انذرقومہ بالا حقاف“ سے لیا گیا ہے۔”احقاف“ عربی میں ریت کے بڑے بڑے پہاڑ نما ٹیلوں کو کہا جاتا ہے لیکن اصطلاح میں یہ صحرائے عرب ”الربع الخالی“ کے جنوبی مغربی حصے کا نام ہے جہاں آج کل کوئی آبادی نہیں اور جو عمان اور یمن کے درمیان واقع ہے (جہاں کبھی قوم عاد یعنی قوم ہود آباد تھی)۔یہ سورت 10 نبوی یا 11 نبوی میں نازل ہوئی۔جب آپؐ طائف سے مکہ کی طرف واپس آتے ہوئے ”نخلہ“ کے مقام پر رکے اور وہاں جنوں کے ایک گروہ نے آپؐ سے قرآن پاک سنا تھا۔سورت کا موضوع کفار کو ان کی گمراہیوں سے خبردار کرنا ہے۔
فرمایا : اے محبوبؐ آپ فرما دیں کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں، میں وحی کا تابع ہوں اور اس کا ڈر سنانے والا ہوں۔تم لوگ قرآن کے منکر ہو۔تم نے یہ حیلہ نکالا ہے کہ غریب لوگ اس قرآن کو ماننے والے ہیں۔حالانکہ یہ وہ کتاب ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا اور اس وقت سے دودھ چھڑانے تک تیس مہینے ضرور لگے۔پھر جب وہ عقل و قوت میں مستحکم ہوا اور جب وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرح چالیس سال کی عمر میں پہنچا تو دعا کرنے لگا کہ اے اللہ مجھے توفیق دے کہ میں تیرا شکر ادا کروں کہ مجھے اور میرے ماں باپ پر تو نے دین کا انعام مرحمت فرمایا، اب میں وہی کام کروں جو تجھے پسند آئے اور میری اولاد بھی صالح ہو۔ہودعلیہ السلام نے اپنی قوم عاد کو احقاف کی وادی میں اللہ کا پیغام پہنچایا تو وہ اس کے منکر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے انکار کی وجہ سے عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔پھر جب ان لوگوں پر آندھی آئی تو وہ سمجھے کہ یہ بادل ہیں لیکن وہ ایک دردناک عذاب تھا جس سے وہ سب کے سب ہلاک ہو گئے اور صرف ان کے مکان ہی باقی بچے۔ اب کچھ جنات کا ذکر ہے جنہوں نے حضور انورؐ کا قرآن سنا تھا جب کہ آپ طائف سے مکہ معظمہ کی راہ میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔وہ جنات اس قرآن کی بات اپنی قوم میں سنانے کے لئے گئے اور کہا کہ وہ راہ حق دکھلاتی ہے اور اگلی کتابوں کی تصدیق بھی کرتی ہے اور اللہ کے قابو سے کوئی بھی باہر نہیں جا سکتا۔
سورۃ محمد…… 47 ویں سورت
سورہئ محمد، مدنی ہے 38 آیات اور 4 رکوع ہیں، نزول کے اعتبار سے 95 ویں سورت ہے۔26 ویں پارہ کے پانچویں سے آٹھویں رکوع تک ہے۔نام، آیت 2 کے فقرہ ”وامنوا بما نزل علی محمد“ سے لیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورت ہے جس میں آپؐ کا اسم گرامی آیا ہے۔اس سورت کا ایک اور نام بھی ہے یعنی سورۃ قتال یہ بھی آیت 20 سے لیاگیا ہے۔یہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں اس وقت نازل ہوئی جب جنگ کی اجازت مل چکی تھی، مگر عملاً ابھی شروع نہ ہوئی تھی۔اس سورت میں ایمان والوں کو جنگ کے لئے تیار کیا گیا ہے اور ہدایات دی گئی ہیں (اسی مناسبت سے اسے سورہ قتال بھی کہا گیا ہے) نیز دوسری مدنی سورتوں کی طرح اعمال صالحہ، مکارم اخلاق اور عبادات کے ذکر کے ساتھ ساتھ منافقین کو تنبیہہ بھی کی گئی ہے اور متقین کے لئے ایسی جنت ہوگی جس میں پانی کی، دودھ کی اور صاف شہد کی نہریں ہوں گی اور ہر طرح کے پھل ہوں گے۔ مسلمانوں کو جب جہاد کا کھلا حکم ملتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں لیکن منافق لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔اور زمین میں فساد پھیلانے والے وہ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے، حق سے وہ بہرے اور اندھے ہیں اور اگر تم اللہ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے گریز کرو گے تو وہ دوسرے لوگ تمہاری جگہ لے آئے گا جو تم جیسے نہ ہونگے یعنی فرماں بردار ہونگے۔
سورۃ الفتح……48 ویں سورت
سورۂ فتح مدنی ہے، 29 آیات اور 4 رکوع ہیں، نزول کے اعتبار سے نمبر 111 ہے۔ چھبیسویں پارہ کے نویں رکوع سے بارہویں رکوع تک ہے۔ سورت کا نام پہلی ہی آیت کے الفاظ ”انا فتحنالک فتحاًمبینا“ سے لیا گیا ہے(یہ صرف اس کا نام ہی نہیں مضمون کے لحاظ سے عنوان بھی ہے) صلح حدیبیہ کی شکل میں ملنے والی فتح عظیم پر کلام ہے۔اس سورت کا نزول ذی القعدہ 6ھ میں اس وقت ہوا جب آپؐ صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لا رہے تھے۔
حدیبیہ میں جو اللہ کی رضا کے لئے حضورؐ نے بیعت فرمائی تھی کہ ”یا رب عثمانؓ تیرے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کام میں ہیں۔یعنی ان کو مکہ کے قریش کے پاس بھیجا تھا تو اس بیعت سے اللہ راضی ہے اور خیبر کی فتح کا وعدہ ہے جہاں بہت سی غنیمت حاصل ہو گی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسولؐ ہیں اور ان کے رفقاء کی شان یہ ہے کہ وہ کفار پر سخت ہیں لیکن آپس میں بہت نرم ہیں وہ رکوع وسجود میں ہوتے ہیں اللہ کا فضل و رضا چاہتے ہیں ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان ہیں اور ان کی یہ صفت توریت اور انجیل میں بھی مذکور ہے۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک کھیتی ہو کہ پہلے اس نے پٹھا نکالا پھر اس میں قوت آئی، دبیز ہوئی، پھر وہ اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہو گئی تو اس کھیتی کے لگانے والے اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں لیکن کافروں کے دل جلتے ہیں ایسے ایمان اور عمل صالح والوں کے لئے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ اللہ نے فرمایا ہے۔ ٭