کالا باغ ڈیم…… آخر کیوں نہیں؟

    کالا باغ ڈیم…… آخر کیوں نہیں؟
    کالا باغ ڈیم…… آخر کیوں نہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مشترکہ حکومت بنی تو سوچا تھا کہ پاکستان کے کچھ دیرینہ مسائل شاید حل ہو جائیں، لیکن وزیراعظم پاکستان کے ایک فیصلے (چیئرمین ارسا کی تعیناتی) پر پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ  نے ظفر محمود کی بطور چیئرمین ارسا تعیناتی کو غیر قانونی، غیر آئینی اور صوبوں کے حقوق کو غصب کرنا قرار دے دیا۔ سابق چیئرمین واپڈا اور سابق وفاقی سیکرٹری ظفر محمود کی بطور چیئرمین ارسا تعیناتی ایک ایسے آرڈیننس کی وجہ سے ممکن ہوئی جو کہ نگران دور میں ”مقتدرہ“ کے حکم پر لایا گیا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے آرڈیننس صدرِ مملکت عارف علوی کو بھجوایا تو انہوں نے دستخط کرنے کی بجائے اعتراض لگا کر بھیج دیا،جنہوں نے اسے روک لیا اور تکنیکی بنیادوں پر منظور کرکے آرڈیننس منظوری کا نوٹیفکیشن بھی نکال دیا۔اب صوبوں سے چیئرمینی چھن چکی ہے۔ البتہ وائس چیئرمین کا نیا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے،جو پی پی پی کو قبول نہیں ہے۔ اسے خطرہ ہے اب ”پانی کی تقسیم“ وفاق کی مرضی پر ہو گی جبکہ اب تک پی پی پی کی مرضی چل رہی ہے۔ چیئرمین ارسا کی تعیناتی وفاق کو دینے پر صرف پی پی پی نہیں جی ڈی اے سندھ ترقی پسند پارٹی، جئے سندھ محاز اور عوامی تحریک کو بھی شدید اعتراض ہے۔ پی پی پی کا موقف ہے کہ ارسا کے چیئرمین کا عہدہ صوبوں کا حق ہے۔ وفاق کو یہ حق چھیننے نہیں دیں گے۔ ارسا اتھارٹی صوبوں میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل کرنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ چاروں صوبے اس کے ممبر ہیں اور اتھارٹی کا چیئرمین ہر صوبے کا ممبر ایک ایک سال رہے گا۔

پانی کی تقسیم کے مسئلے کے حل کے لئے میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے 1991ء میں پانی کی تقسیم کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت پنجاب کو 37 فیصد، سندھ کو 33 فیصد، خیبر پختونخوا کو 14 فیصد اور بلوچستان کو 12 فیصد پانی ملنا تھا مگر اب شاید صدر آصف زرداری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور مستقبل کی قیادت بلاول بھٹو اس معاہدے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں (شاید وہ بھی اس موقف کے حامی بن چکے ہیں کہ سندھ صرف صوبہ سندھ کا ہے)۔ 

پیپلز پارٹی کو دوسرا اعتراض چیئرمین ارسا کے عہدے پر ظفر محمود کی تعیناتی پر تھا۔ ظفر محمود ان لوگوں میں سے ہیں،جو پاکستان میں ڈیم اور خاص طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ظفر محمود نے کالا باغ ڈیم کے لئے ایک معروف قومی اخبار میں لگاتار 25 کالم لکھے۔ ظفر محمود کو 2014ء  میں وزیراعظم نواز شریف نے چیئرمین واپڈا بنایا اور سوا  دو سال بعد نواز شریف کے دور میں ہی انہیں ”رخصتی“ مل گئی۔ ان کی ”رخصتی“کی اصل وجہ کالا باغ ڈیم کا سب سے بڑا حمایتی ہونا تھا، آج پاکستان میں پانی کی شدید کمی ہے۔ زیر زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کی آزادی کے بعد صدر ایوب خان کے دور میں دریاؤں کی تقسیم کا جو معاہدہ یعنی سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ اسکے مطابق دریائے جہلم، چناب اور سندھ پاکستان کے حصے میں آئے تھے،  بدقسمتی سے بھارت اب ان دریاؤں کے پانی پر بھی قبضہ کر رہا ہے۔ دریائے جہلم کے پانی کو روکنے کے لئے بھی ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ چناب کے پانی پر تو روز روشن میں ڈاکے ڈالے گئے ہیں اور بڑے ڈیم بنائے گئے ہیں سندھ کے پانی کی چوری کے لئے بھی کام جاری ہے۔ان حالات میں اس بدقسمت قوم نے جو آج 77 سال میں بھی قوم نہیں بن سکی ہجوم ہی ہے، صرف دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا 60ء اور 70ء کی دہائی میں بنائے۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے زرخیز زرعی رقبہ ہے، انگریز نے ان زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے ایک بڑا آبپاشی کا نظام نہروں کی شکل میں بنایا،لیکن نہروں کو پانی تو تب ہی ملے گا جب دریاؤں میں پانی ہو گا۔ بھارت 1947ء کے بعد سے اب تک چار ہزار ڈیم بنا چکا ہے۔ ڈیموں کی تعمیر کے معاملے میں چین اور امریکہ دنیا میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ چین نے 1950ء سے اب تک پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی پیدا کرنیوالے 50 ہزار ڈیم بنائے ہیں۔  

ہم 77 سال میں صرف دو بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا بنا سکے ہیں۔ کوہ سلیمان پر ہونے والی بارشوں کا پانی رود کوہیوں کی شکل میں ہر سال تباہی پھیلاتا ہے، بلوچستان میں ہونیوالی بارشوں سے بھی ہر سال  اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پچھلے سال موسمی تبدیلیوں کے ساتھ ہونے والی بارشوں نے سندھ میں تباہی مچا دی لیکن ہم ہیں کہ اس قیمتی پانی کو مسلسل ضائع کر رہے ہیں۔ ہماری صرف ایک کوشش ہے کہ سندھ کا پانی پاکستان سے گزرے اور سمندر میں چلا جائے۔ سمندر میں گر کر ضائع ہو مگر راستے میں استعمال نہ ہو، سندھیوں کو نجانے کس نے کہہ دیا کہ پنجاب پانی میں سے بجلی نکال کر اسے اسی طرح پھوک بنا دیتا ہے جیسے گنے میں سے رس نکال کر اس میں پھوک باقی بچتا ہے۔ یہ آج سے تین چار دہائیوں قبل کی باتیں تھیں، آج اکیسویں صدی میں جب ہر بچے کے ہاتھ میں موبائل فون ہے، جس پر ہر وقت انفارمیشن کی بھرمار ہے، ہم اپنے بچوں کو غلط اور صحیح کی کوئی تفریق نہیں بتا پا رہے۔ انہیں یہ نہیں بتا رہے کہ ڈیم بنانے کیوں ضروری ہیں؟ کل انہیں اور ان کی آنے والی نسل کو پانی نہیں ملے گا، لیکن ہم اج اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ ظفر محمود کو چیئرمین ارسا نہیں بننے دیں گے۔ میں تو یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ وہ جنہوں نے نگرانوں سے چیئرمین ارسا کا عہدہ وفاق کو دینے کا فیصلہ کرایا وہ آج کہاں ہیں؟ 

کالا باغ ڈیم اس خطے کا سب سے پرانا منصوبہ تھا۔ 1873ء میں انگریز نے اس جگہ کو مناسب قرار دیکر یہاں پر ڈیم بنانے کے لئے ایک سروے کروایا، لیکن تعمیر ممکن نہ ہو سکی۔ پاکستان کے قیام کے بعد ایوب خان کے دور میں جو تین جگہیں چنی گئیں وہ منگلا، تربیلا اور کالا باغ تھے، لیکن تربیلا چونکہ ایوب خان کے دل کے قریب تھا، ان کے گاؤں کے قریب تھا لہٰذا منگلا کے بعد تربیلا کی تعمیر شروع ہو گئی اور کالا باغ ڈیم چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک کالا باغ ڈیم نہیں بن سکا، کالا باغ ڈیم 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرے گا اور اس کے ذریعے 50 لاکھ ایکڑ فٹ زمین سیراب ہو گی۔ اس سے  پانچ ہزار میگا واٹ تک بجلی بنائی جا سکے گی جس کی قیمت  دو سے ڈھائی روپے فی یونٹ ہے، جبکہ آج کل ہم 60 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ اس ڈیم کے لئے 24500 ایکڑ اراضی پنجاب اور صرف تین ہزار ایکڑ زمین خیبر پختونخوا سے لی جائے گی، یعنی کہ زیر آب آئے گی اور جھیل کا حصہ ہو گی، پتہ نہیں اِس کے باوجود کیوں یہ بد قسمت ہے نہیں بن پا رہا۔

مزید :

رائے -کالم -