کوچہ جاناں
عالم اسلام کو یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ فلسطین کی بچیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا جائے۔بھوک سے بلکتے بچے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرجائیں اور یہ منظر بھی پہلی بار ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ امداد لینے آئے معصوم فلسطینیوں پر حملہ کردیا گیا ہو اس سے پہلے بھی اسرائیلی سورماؤں نے کئی بار ایسی گھناؤنی کارروائیاں کی ہیں کہ امداد کے منتظر زخموں سے چور شہریوں پر بم برسادئیے گئے۔یوں تو یہودی مسلمانوں پر ستم کے نئے نئے طریقے ایجاد کرچکے ہیں لیکن شائد ہماری مسلم بیٹیوں کی عصمتوں کو پامال کرکے انہیں شہید کرنا یہودیوں نے بھارتی ہندوؤں سے مستعار لیا ہے کہ مسلمان بھارت کے ہوں یا مقبوضہ کشمیر کے۔ انتہاء پسند ہندو بھارتی فورسز سے مل کر ایک طویل عرصہ سے مسلمانوں کی نسل کشی کرتے آرہے ہیں مسلمان بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر انہیں قتل کردینا ہندوؤں کیلئے عام سی بات ہو چکی ہے۔
ہم کہ دشمن کی بیٹیوں کی عزتوں کے بھی پاسدار تھے آج دنیا میں اپنی بیٹیوں کی عزتیں بچانا ہمارے لئے محال ہوچلا ہے آج ہمیں اس بات کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ مسلمان دنیا میں کمزور اور ہراساں ہوچکا ہے غیر مسلم قوتیں ہم پر بھاری پڑتی جاتی ہیں وگرنہ مسلم حکمرانوں کی ہیبت سے کافروں پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی مسلم حکمرانوں نے اپنی فتوحات اور کامیابیوں کی لازوال داستانیں رقم کیں، کافر مسلمانوں کی تاریخ سے واقف تھا اس نے مسلمانوں کے اندر اپنی دھاک بٹھانے اور دنیا سے مسلمانوں کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے بڑی محنت کی کافر اپنی سازشوں میں کامیاب ہوا آج دنیا دیکھ رہی کہ اسرائیلیوں نے معصوم فلسطینیوں کو کس بے دردی سے شہید کیا لیکن دنیا کا کوئی حکمران ایسا نہیں جو اسرائیلیوں کے بڑھتے قدموں کو روک سکے اور تو اور اسرائیل تو اقوام متحدہ کو خاطر میں نہیں لارہا اسرائیلی منفی کارروائیاں سلامتی کونسل کیلئے کھلا چیلنج بن چکی ہیں ایک طرف بھارتی مقبوضہ کشمیر تو دوسری جانب یہودی فلسطین پر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں بھارتی غنڈے اور اسرائیلی یہودی مسلمانوں کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں طرف مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے-
تا کہ دنیا سے مسلمانوں کا وجود ختم ہو اور مسلمان اس قدر کم اور کمزور ہو کررہ جائیں کہ غیر مسلموں کے آگے کوئی سر اٹھانے کی جرات نہ کرے در اصل کافر اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ ایک سچا مسلمان کافروں کی بڑی سے بڑی فوج پر بھاری پڑتا ہے اور جذبہ ایمانی سے سرشار مسلمان جب اٹھ کھڑے ہوں تو یہ مقابل کافروں کا صفایا کرتے جاتے ہیں حماس کے جوانوں نے گزشتہ برس سات اکتوبر کی صبح ایسا طوفان برپا کیا کہ ابھی تک اسرائیل بوکھلایا ہوا ہے مجاہدین کیلئے یہ آپریشن اس لئے ناگزیر ہوچکا تھا کہ اسرائیل نئے مشرق وسطی کے نقشے سے فلسطین کو ختم کرچکا تھااسرائیلی وزیراعظم کو اپنے ملک میں بدعنوانیوں سمیت دیگر سنگین الزامات کا سامنا تھا اپنے شہریوں کی شدید تنقید سے بچنے کے لیے نیتن یاہونے عرب ممالک سے اپنے تعلقات کو استوار کرنا شروع کردیاہمارے عرب ممالک کے حکمران بھی اس بھیڑئیے کے جھانسے میں آگئے سات اکتوبر سے قبل یہی بھیڑیا جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں نئے مشرق وسطی کی تشکیل کا اعلان کرتا ہے جس میں فلسطین کو دکھایا ہی نہیں گیا وہ فلسطین جسے پیغمبروں کی سرزمین کہا گیا ہے مسجد اقصیٰ جس کے اطراف میں خدا نے برکتیں رکھ دی ہیں پر یہودیوں کا تسلط ہے فلسطین کو تو جب مشرق وسطی کے نئے نقشے میں شامل ہی نہیں کیا گیا تھا تو حماس کے مجاہد کیا کرتے؟ وطن کی محبت تو رب کائنات نے ہر کسی کی سرشت میں رکھ دی ہے وطن کسے عزیز نہیں ہوتا نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مکہ کے لوگوں کے مظالم سے تنگ آکر مکہ چھوڑا تو کعبہ کو دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اے کعبہ تو مجھے ساری دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔
اپنی جگہ اپنے شہر اپنے وطن کو چھوڑنا آسان نہیں ہوتا بہادر شاہ ظفر جب رنگون میں پابند سلاسل تھا تو اس نے کہا کہ
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہ کوئے یار بہادر شاہ ظفر نے اپنے وطن کو ہی تو کہاتھافیض احمد فیض کی غزل میں اس کا محبوب بھی تو اس کا وطن ہی ہے جس کے لئے فیض نے کہا تھا: مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں۔دل والو کوچ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں،
فیض کا کوچہ جاناں اس کے وطن کی گلیاں ہیں
اور فلسطین کہ جسے ہر لحاظ سے اک مرتبہ حاصل ہے فلسطینیوں کو یہ کیسے قبول ہوتا کہ مشرق وسطی کے نئے نقشے سے اسے نکال دیا جائے یہی وجہ ہے کہ حماس کے مجاہدین کو سات اکتوبر آپریشن طوفان الاقصیٰ کرنا پڑا حماس کے مجاہدین کہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں صرف جذبہ جہاد تھا یا شوق شہادت۔ حماس کے مقابلے میں ایک ایٹمی قوت اسرائیل ہے لیکن ان کے سامنے دنیا کی ایٹمی طاقتیں بھی ہیچ ہیں انکے سامنے انکا مقصد ہی عظیم ہے اور کسی عظیم مقصد کے لئے جانیں تو قربان کرنا پڑتی ہیں وگرنہ کئی رمضان المبارک آئے کہ جب اسرائیل کے بم فلسطینیوں پر برسائے گئے، فلسطینی تو اک طویل عرصے سے یہودیوں کے ستم کا نشانہ بنتے آ رہے ہیں وہ فلسطینی کہ جنہوں نے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے یہودیوں کو پناہ دی رہنے کو جگہ دی اور برطانیہ نے بھی غلیظ یہودیوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے انہیں فلسطین میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ یہودیوں کی پست ذہنی سے محفوظ رہا جاسکے دوسرے برطانیہ کے مقاصد میں تھا کہ مسلمانوں کو ظلم کرکے دبایا جاسکے لیکن اب اسرائیل کا ظلم اپنی حدوں سے تجاوز کر چکا ہے اور عالم اسلام کی سرد مہری نے بھی اسلامی وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے جو صرف مذمتوں تک محدود رہے۔قدرت کا قانون حرکت میں آنے والا ہے۔ یہودیوں کا غرور خاک میں مل کررہے گا حماس کے مجاہدین سرخرو ہونگے ارض پاک فلسطین یہودیوں کے ناپاک قدموں سے پاک ہوکررہے گی ان شاء اللہ تعالیٰ