کاش مَیںبھی پولیو کے دو قطرے پی لیتا !

کاش مَیںبھی پولیو کے دو قطرے پی لیتا !
کاش مَیںبھی پولیو کے دو قطرے پی لیتا !

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سندر لال ہے تو اپنے نام کی طرح سندر اور خوبصورت، لیکن معذور ہے۔ اسے یہ قطعی معلوم نہیں کہ چلنا پھرنا اس کے لئے ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ غریب مزدور کے بچے کو یہ تک معلوم نہیں کہ اسے ساری زندگی ایک اپاہج کی طرح گزارنا ہوگی اور وہ بچوں کو کھیلتے کودتے صرف دیکھ ہی سکتا ہے، مگرخودکبھی کھیل کود میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ سندر لال کی رہائش حیدرآباد کے علاقے سحرش نگر میں ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں کے رہائشی بنیادی سہولتوں کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ وہاں گھروں میں فراہم کئے جانے والے پانی کی لائنیں خستہ حال ہونے کی وجہ سے گٹر اور نالوں سے مل گئی ہیں، جس کی وجہ سے رہائشی مجبوری کے باعث مضرصحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں ، جیسا کہ پولیووائرس بچوں کے پیٹ میں منہ کے ذریعے داخل ہو کر سکونت اختیار کر تا ہے اور بچے کو متاثر کرناشروع کر دیتا ہے۔ پیٹ میں سکونت کی وجہ سے یہ پولیو وائرس انسانی فضلے میں بھی شامل ہو جاتا ہے اور اسی طرح جب پینے کے پانی کی لائنوں کے ساتھ گندے پانی کی ملاوٹ ہوتی ہے تو یہ پولیو وائرس بڑی تعداد میں بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہی پانی سندر لال کی سندرتا کو گہن بن کر لگا ہوا تھا۔ حیدرآباد شہر میں بھی سندھ کے دوسرے علاقوں کی طرح بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں، مگر پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حیدرآباد میں پینے کی پانی کی لائنیں زیر زمین اور انتہائی خستہ اور قابل رحم حالت میں ہیں ۔

واسا حکام بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ کئی علاقوں کی لائنیں خراب ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے پینے کے پانی میں گندے پانی کی ملاوٹ ہو رہی ہے ۔ حیدرآباد شہر کی سیوریج لائن میں پولیو وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے ۔ پولیو کوئی ایسی بیماری تو نہیں جو ختم نہ ہوسکے ۔ پولیو وائرس بھارت سمیت کئی ملکوں میں ختم ہو چکا ہے! لیکن پاکستان ، افغانستان اور نائیجیریا میں ابھی اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔پاکستان میں پولیو مہم ایک لمبے عرصے سے چلائی جا رہی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان پولیو فری ملک نہیں بن پا رہا ۔پاکستان میں پولیو کوختم کرنے کے لئے جو اقدامات کئے جارہے ہیں۔ وہ ناکافی ہیں اور یہ ناکافی اقدامات بھی ایمانداری سے انجام نہیں دیئے جارہے ہیں ۔ پاکستان کے صوبہ سندھ میں نیشنل نیوٹریشن سروے 2011ئکے مطابق 72فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، جس میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل ہیں ۔ انہی بچوں میں 17.5بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سندھ کی مجموعی آبادی تین کروڑ چار لاکھ اٹھانوے ہزار سے زائد ہے، جس میں 2.8 فیصد کے حساب سے ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ صرف 40فیصد لوگوں کو سیوریج کی سہولت میسر ہے اور باقی 60فیصد لوگ....؟
سندھ کے دیہاتوں میں 48.75 فیصد لوگ رہتے ہیں، جنہیں زندگی گزارنے کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں اور نہ ہی انہیں شعور اور آگاہی ہے، اس بات کی کہ وہ صفائی کی عادت کو اپنا کر کئی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں ۔ ان تمام پریشانیوں میں مزید اضافہ غذائی قلت نے پیدا کر دیا ہے ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہر گھر میں دس بارہ بچے ہیں، جنہیں اچھی خوراک تو کیا پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ اکثر خاندانوں میں تو ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ تمام بچے ایک ساتھ ایک دوسرے کا جھوٹا کھاتے ہیں اور اگر کسی بچے کو پولیو ہے تو اس بچے کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا اور وہ بچہ گھر کے دوسرے بچوں کے ساتھ کھاتا پیتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک ہی خاندان میں دوسرے بچوں کو بھی پولیو سے متاثر ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پولیو وائرس سلائیوا(لعاب دہن) کے ذریعے منہ میں داخل ہو کر کسی بھی بچے کو بآسانی متاثر کرتا ہے ۔ دیہات میں رہنے والی آبادی کو تو یہ تک نہیں معلوم کہ سیوریج سسٹم کیا ہو تا ہے اگر اس میں بہتری آجائے ، تولوگ کئی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور ان معصوموں کے نصیب میں تو اتنا زیادہ سیلاب کا پانی ہے کہ اس میں ڈوب کر مرجائیں اور کبھی کبھی تو ایک گھونٹ صاف پانی کو ترستے ترستے مرجاتے ہیں۔ انہیں پینے کے لئے وہ پانی ملتا ہے جس میں بھینسیں اور مال مویشی ایک طرف بیٹھے ہوتے اور دوسری جانب عورتیں مٹکے سے پانی بھر رہی ہوتی ہیں ۔
مسلسل آنے والے سیلابوں کے باعث غربت، افلاس ، غذائی قلت اور بیماریوں میں بے انتہا اضافہ ہو ا ہے جو آج تک بہتر نہیں ہو سکا ۔ پاکستان میں پولیو مہم 1994ئسے چل رہی ہے اور اس مہم کو چلانے کے لےے ملنڈا گیٹس ، ڈبلیو ایچ او، اس کے علاوہ یونیسیف سے بھی فنڈز لئے جارہے ہیں ۔ طویل عرصے سے مہم چلنے کے باوجود ہم پولیوفری ملک نہیں بن پائے ،جس کی وجہ پولیو مہم کی پالیسی میں ایسی خامیاں پائی جاتی ہیں، جنہیں اگر درست نہ کیا گیا تو شاید ہی پاکستان سے پولیو وائرس ختم ہوسکے گا ۔ پاکستان کے ہر علاقے میں رسائی دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ آسان نہیں ۔ جی ایم پولیو سیل کے مطابق 1994ئمیں پولیو کے تقریباً چالیس ہزار کیس سامنے آئے جو 2006ئمیں مزید کم ہوئے، 2010ئمیں پولیو کے 144کیس سامنے آئے جو 2011ئمیں بڑھ کر 198ہوگئے۔ ( پولیو زدہ ممالک میں یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔) 2012ئمیں پاکستان میں 71فیصد کمی کے ساتھ پولیو کے 58کیس سامنے آئے اور رواں سال بھی پولیو کے 6کیس سامنے آئے ہیں ،جن کی وجوہات میں دوردراز علاقے، دہشت گردی ، امریکا اور غیر مسلموں کے ساتھ نفرت، انتہا پسندی کے علاوہ اور بھی کئی عوامل شامل ہیں جو پاکستان میں لوگوں کو اپاہج ہونے سے بچانے کے لئے چلائی جانے والی مہم کو مزید ناکارہ بنارہے ہیں ۔
پولیو کی ٹیمیں 2010ئسے قبائلی علاقوں میں مہم نہیں چلا سکیں، جس کی وجہ مذہبی انتہا پسندی ، لاشعوری اور ڈاکٹر شکیل آفریدی شامل ہیں ۔ ایسے قبائلی علاقوں میں ریڈیو مہم کے ذریعے شعور اور آگاہی دی جاسکتی ہے ۔ پولیو مہم میں کام کرنے والے فیلڈورکرز کو پولیو مہم پالیسی میں شامل کرنا بھی بہتر اقدام ہے۔ پولیو فیلڈورکروںکی تربیت کرائی جائے تاکہ وہ فیلڈ میں پیش آنے والی مشکلات اور بچوں کے والدین کی جانب سے کئے جانے والے مختلف سوالات چاہے وہ مذہبی یا لاشعوری کی بنیاد پر ہوں ، ان کا بہتر جواب دے پائیں اور انہیں مطمئن کرسکیں تاکہ اس طریقے سے پولیو مہم کے ساتھ جھوٹی افواہوں کا بھی خاتمہ ہوسکے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے گرم ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے کے درمیان کا فاصلہ بھی خاصا ہے، جس کہ وجہ سے وہاں پہنچنا اور پولیو ویکسین کو اس کے مخصوص اور محفوظ ٹمپریچر پر رکھنا مشکل کام ہے، کیونکہ پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا جن بے قابو ہے اور چھوٹے علاقوں میں بجلی کا موجود ہونا کسی نعمت سے کم تصور نہیں کیا جاتا۔ اس صورت حال میں پولیو ویکسین کے آئس باکس ویکسین کے ساتھ آئس کا مل جانا کسی نعمت سے کم نہیں، جبکہ مخصوص ٹمپریچر نہ ملنے کی وجہ سے ویکسین اپنا اثر کھودیتی ہے یا کسی بچے کے جسم میں داخل ہو کر اسے متاثر کرسکتی ہے، یعنی فائدے کے بجائے نقصان پہنچاسکتی ہے ۔
ایسی پولیو ویکسین بچوں کو دینا جو مخصوص ٹمپریچر پر نہ رکھی گئی ہو، بالکل اسی طرح ہے کہ گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو ہونے کے امکانات میں مزید اضافہ کردینا ۔ایک سچائی یہ بھی ہے کہ کافی لوگ پاکستان میں ایسے بھی ہیں جو نہیں چاہتے کہ پولیو کا خاتمہ ہو، کیونکہ اگر پولیو مہم ختم ہوگئی تو بیرون ملک سے آنے والے فنڈز اور ڈالر بھی ختم ہو ۔ اسی وجہ سے پولیو مہم کا فی علاقوں میں صرف کاغذی کارروائی تک ہی ہوتی ہے ۔ اگر ضلع اور یونین کونسل کی سطح پر آگاہی مہم شروع کی جائے اور بتایا جائے کہ پانی کو مصنوعی طریقوں سے کیسے صاف کیا جا تا ہے اور صفائی رکھنے کی عادت اپنانے سے کافی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے تو یہ بھی بہتری کی جانب ایک قدم ہو گا، اس کے علاوہ مذہبی انتہا پسندی بھی پولیو مہم کے سامنے ایک خوفناک دیو کی مانند ہے جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔ مولوی صاحبان کو چاہےے کہ وہ جھوٹے فسانوں کی کھل کر تردید کریں، مگر اس سے پہلے ہمیں مذہبی افراد کے خدشات کو ثبوتوں کی بنیاد پر ان کے تحفظات کو ختم کرنا ہو گا تاکہ وہ خود مطمئن ہوسکیں اور اسے آگے تک منتقل کرسکیں ۔
پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کو پچھلے سال پولیو فری ملک قرار دیا جا چکا ہے ۔ وہاں ایک انتہائی اہم اور کارآمد پالیسی بنائی گئی، جس میں وہاں کی مقامی تنظیمیں اور سول سوسائٹی نے یونیسیف کے ساتھ تعاون کیا اور سول سوسائٹی کے کئی افراد کو تربیت دی گئی، جس کے بعد انہوں نے کمیونٹی میں جا کر بچوں کے والدین سے بات چیت کی اور انہیں آگاہی اور شعور فراہم کیا، اس کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات پر بھی آمادہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں ۔ اسی دوران انہوں نے ان کے خدشات اور کئے جانے والے سوالات اور دئےے جانے والے مشوروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جو بھارت میں پولیو پر کام کرنے والے سینئر سٹاف کو فراہم کیا گیا، جس کی بنیاد پر پولیو پالیسی میں مزید بہتری لائی گئی ۔ اس کے برعکس پاکستان میں محکمہ صحت ہی پولیو کی پالیسی سے لے کر مہم تک میں تنہا ہے۔ اگر ہم بھی بھارت میں زیر عمل پالیسی کو بروئے کار لائیں پولیو خاتمے کی مہم کو یونین کونسل کی سطح پر بنائیں ، مذہبی افراد اور کمیونٹی سے تعاون بڑھائیں تو کئی سندر لال جیسے معصوم بچے اپاہج ہونے سے بچ جائیں اور ان ہی سندر لالوں کو بچانے کے لئے تو دنیا پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم چلارہی ہے۔      ٭

مزید :

کالم -