ریلوے کی حالتِ زار (2)

ریلوے کی حالتِ زار (2)
ریلوے کی حالتِ زار (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لیکن پلیٹ فارم پر کھڑی عوام ایکسپریس کو دیکھ کر بالکل نہیں لگتا کہ یہ اسی ریلوے کی نشانی ہے جس کے نام کا ایک زمانے میں ڈنکا بجتا تھا۔ اس کی بوگیاں گرد آلود تھیں اور ملازمین میلے یونیفارم میں گھوم رہے تھے۔ ریل کا عملہ صرف ایک کلاس یعنی متوسط (اکانومی) کلاس کے ٹکٹ فروخت کر رہا تھا پولیس والے مسافروں سے رشوت وصول کرکے انہیں جگہ فراہم کر رہے تھے۔ چونکہ ٹرین جنریٹر کی سہولت سے محروم تھی اس لئے اس میں ائیر کنڈیشر بھی نہیں تھا۔ ریلوے کی اس خستہ حالی کی بے شمار وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جن میں انتہا درجے کی بدعنوانی سے لے کر ریلوے کی زمینوں پر لینڈ مافیا کے قبضے اور ملازمین کی بے تحاشا بھرتیاں چند بڑی وجوہات ہیں چند ایک پر ڈکلن واش نے تفصیل سے لکھا ہے ڈکلن رقم طراز ہے ”گزشتہ سال ریلوے کے سابق وزیر غلام احمد بلور قومی ادارہ برائے احتساب کے سامنے پیش ہونا پڑا عدالت نے ریلوے کے دو اہم افسران کو جیل بھجوا دیا۔ مسٹر بلور جیل جانے سے بچ گئے اور ریلوے کی زبوں حالی کا ذمہ دار انہوں نے فنڈز کی کمی کو ٹھہرایا کیونکہ ان کے بقول اتنے بڑے ادارے کو چلانے کےلئے ان کے پاس مناسب فنڈز نہیں تھے۔
ملک کی صنعتی اور عسکری اشرافیہ ڈکلن کے مطابق جہاں ملک کے دیگر اداروں کی تباہی کی ذمہ دار ہے وہاں اس نے ریلوے کو بھی برباد کرنے میں کسر نہیں چھوڑی اور اس ادارے کے خسارے میں جانے سے اشرافیہ کس انداز میں فیضیاب ہو رہی ہے ملاحظہ کیجئے ”ریلوے کی بدقسمتی سے لاہور کی اشرافیہ بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھا رہی ہے عشروں تک ملک کے اس اہم ڈویژن لاہور کو جاگیرداروں نے اپنے تسلط میں رکھا کیونکہ یہ جاگیردار طبقہ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا اور ان کی پارلیمان میں آبائی نشستیں ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں لیکن اب اس جاگیردار طبقے کو اک نئی اشرافیہ نے میدان سے باہر کر دیا ہے اور یہ وہ اشرافیہ ہے جو ریلوے کی زمین پر تعمیر ہونے والے کنٹری کلب میں آکر بسیرا کرتی ہے رائل پام گالف اور کنٹری کلب ایک ایسا کلب ہے جہاں لاہور (بلکہ ملک کی) اشرافیہ کے لئے وہ سب سہولیات میسر ہیں جن کا کوئی انسان تصور کرسکتا ہے۔ اس کلب میں داخلے کی فیس آٹھ ہزار اامریکی ڈالر ہے اور یہ ملک کی اس اشرافیہ کی آمجگاہ ہے جس نے رئیل سٹیٹ‘ صنعت اور بدعنوانی کے ذریعے پیسہ بنایا ہے۔ جس وقت رائل پام کلب کے لئے ریلوے کی زمین لیز (ٹھیکے) پر دی گئی اس وقت ریلوے کے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی تھے۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ عسکری قوتوں نے ریلوے کے سسٹم میں مداخلت کی کوشش کی ہو۔ 1980ءکی دہائی کو یاد کیجئے جب فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق نے ریلوے کی مالی گاڑیوں کا سارا کاروبار نیشنل لاجسٹک سیل کے حوالے کر دیا تھا جب میں نے اس حوالے سے مختلف شخصیات کی رائے لی تو سب نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ضیاءالحق کا اک غلط فیصلہ ریلوے کے لئے بڑی تباہی لے کر آیا۔
ےہ تھے نیویارک ٹائمز کے مضمون نگار ڈکلن واش کے پاکستان ریلوے کے حوالے سے تحریر کردہ مضمون میں سے چند اقتباسات اب جبکہ مسلم لیگ (ن) 11مئی 2013ءکے انتخابات کے نتیجے میں پارلیمان میں اکثریتی قوت کے طور پر سامنے آچکی ہے تو مجھے سابق بھارتی وزیر ریلوے لالو پرسادیا دیو کی بے اختیار یاد آئی جنہوں نے خسارے میں جانے والے ایک ادارے کو اپنی ان تھک محنت سے آج دنیا کے چند بڑے ریلویز میں شامل کروا دیا ہے۔
6اپریل 1853ءکو معرض وجود میں آنے والے بھارتی ریلوے کی حالت زار بھی 2004ءسے قبل پاکستان ریلوے سے مختلف نہ تھی‘ لیکن بھارت کے موجودہ وزیر ریلوے مکھل رائے اس لحاظ سے خوش قسمت انسان ثابت ہوئے کہ ان کے پیشرو لالو پرسادیا دیو کی شبانہ روز محنت اور بے مثال لگن نے بھارتی ریلوے کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ انہیں کسی تردد کی ضرورت نہ پڑی۔ 11جون 1948ءکو پٹنہ بہار میں پیدا ہونے والے لالو پرسادیا دیو اس لحاظ سے ایک مختلف انسان ہیں کہ بھینسوں کے ایک چھوٹے سے تبیلے (باڑے) سے بہار کی وزارت اعلیٰ اور پھر مرکزی حکومت میں وزیر ریلوے تک کا سفر انہوں نے قینچی چپل اور دھوتی کرتے کے ساتھ اس شان سے طے کیا کہ اقتدار کے سنگھاسن پر پشت در پشت سے براجمان مورثی سیاستدان بھی عش عش کر اٹھے۔ 2005ءمیں یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم بھارتی طلباءکے ایک وفد نے جب وزیر ریلوے سے ملاقات کی تو طلباءان کی گلابی انگریزی سن کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ لالو پرسادیادیو نے چہکتے ہوئے بتایا کہ وہ محض آٹھویں جماعت پاس ہیں‘ لیکن اس آٹھویں پاس شخص نے 2009ءمیں جب وزارت ریلوے کا چارج چھوڑا تو ریلوے کے محاصل 106647کروڑ سالانہ یعنی 21.28 ارب ڈالر تھے جبکہ خالص منافع 9610کروڑ یعنی 1.92ارب ڈالر تھا۔ 1977ءمیں 29 سال کی عمر میں لوک سبھا (پارلیمنٹ کا ایوان زیریں) کا ممبر بننے سے لے کر 1980ءتا 1989ءتک بہار کی وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالنے اور پھر 5 جولائی 1997ءکو نئی سیاسی جماعت راشٹریہ جنتا دل کو تخلیق کرنے اور اسے بائیں بازو کی اہم سیاسی جماعت بنانے تک بے شمار کامیابیاں لالو پرسادیادیو کے کریڈٹ پر تھیں‘ یہی وجہ تھی کہ 2004ءمیں جب یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (UPA) کی مخلوط حکومت مرکز میں تشکیل پائی تو ریلوے جیسا اہم قلمدان ان کے سپرد کیا گیا۔ بھارتی ریلوے کو خسارے سے نکال کر ایک منافع بخش ادارہ بنانے کے لئے لالو پرسادیادیو کو راکٹ سائنس کے استعمال کی ضرورت نہ پڑی‘ بلکہ انہوں نے چند ایک سخت فیصلے کئے‘ جن کی بدولت بھارتی ریلوے کی کایا پلٹ گئی اور آج 16 لاکھ ملازمین کے حامل اس ادارے کا شمار حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے دنیا کے چند بڑے اداروں میں ہوتا ہے‘ وہ کیا اقدامات تھے‘ آئیے نظر ڈالتے ہیں۔
لالو پرسادیادیو نے محسوس کیا کہ بھارتی ریلوے کا سگنل سسٹم فرسودہ ہے اور دور جدید میں ریلوے کو رواں دواں رکھنے کے لئے ڈیجیٹل سگنل سسٹم کی ضرورت ہے‘ تاکہ حادثات سے بجا جاسکے‘ اس نظام کو بدلنے کے لئے خطیر رقم درکار تھی اور ان کے اس فیصلے پر تنقید بھی ہوئی‘ لیکن انہوں نے ایسا کر دکھایا اور بتدریج سگنل سسٹم کو ڈیجیٹل کر دیا گیا‘ جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ٹرینوں کی آمد ورفت میں ہونے والی گھنٹوں کی تاخیر ختم ہوگئی اور ٹرینیں بتدریج ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق چلنے لگیں۔
لالو پرساد نے اس حقیقت کا ادراک بھی کرلیا تھا کہ دنیا بھر میں ریلویز مال بردار ٹرینوں سے زیادہ منافع حاصل کرتی ہیں‘ جبکہ مسافر ٹرینوں کو سبسڈی دی جاتی ہے‘ اس لئے انہوں نے بھارتی ریلوے کی خستہ حال فریٹ سروس کو از سرنو منظم کرنے کے لئے کاوشیں شروع کر دیں۔ کاروباری طبقے کو اعتماد میں لے کر فریٹ سروس کو تیز اور فعال بنایا گیا‘ جس کی بدولت ریلوے کی آمدن میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور پھر اس منافع کو انہوں نے مسافر ٹرینوں کی حالت کو بہتر بنانے اور مسافروں کو بہتر سفری سہولیات فراہم کرنے پر خرچ کیا۔ لالو پرساد نے مسافر ٹرینوں کو گروپوں میں تقسیم کرکے اس اعتبار سے ان میں سہولیات کی فراہمی کا بندوبست اور ان کے کرایوں کا تعین کیا‘ اس وقت بھارت کی تیز ترین ایکسپریس ڈرونٹو ہے‘ جو 140کلومیٹر فی گھنٹے سے زائد رفتار سے سفر کرتی ہے اور یہ مکمل ائیرکنڈیشنڈ ٹرین ہے‘ جو نان سٹاپ سفر کرتی ہے۔ اس کی کیٹگری 1-Aہے۔
راجدھانی ایکسپریس بھی مکمل ائیر کنڈیشنڈ ہے‘ اس کی حد رفتار بھی 140کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد ہے‘ لیکن یہ نان سٹاپ نہیں ہے۔ اس کی کیٹگری 2-Aہے۔ اس کا کرایہ 1-Aکیٹگری کی ٹرین سے کم ہے۔ سما پارک کرانتی ایکسپریس ایسی ٹرین ہے جو بھارت کے مختلف شہروں سے صرف دارالحکومت نئی دہلی کے لئے روانہ ہوتی ہے۔ یہ برق رفتار ٹرین بھی نان سٹاپ ہے‘ جس میں اکانومی سے لے کر ائیر کنڈیشنڈ اور پالر تک تمام کلاسز موجود ہیں‘ اس کی کیٹگری 3-Aہے۔ اس کے بعد کی کیٹگری فرسٹ کلاس ہے‘ جس میں 5 ٹرینیں شامل ہیں۔ اس طرح ٹرینوں کی 11کیٹگریاں ہیں‘ جن میں میٹروز بھی شامل ہیں۔ میٹروز ٹرینیں ممبئی اور دہلی جیسے میٹرو پولیٹن شہروں میں چلتی ہیں‘ جن میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ ان کا کرایہ بسوں کے مقابلے میں نہایت کم ہو‘ اگرچہ میٹرو ٹرینوں میں لگژری سہولیات مہیا نہیں کی گئیں‘ لیکن اس کے باوجود اندرون شہر سفر چونکہ بہت لمبا نہیں ہوتا‘ اس لئے شہریوں کی اکثریت انہی میں سفر کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کے پاس پاکستان ریلوے کو ٹھیک کرنے کیلئے لالو پرساد جیسا کوئی ذہین دماغ ہے یا نہیں؟   ٭

مزید :

کالم -