لمیٹڈ کمپنی طرز سیاست
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاست ناممکن کو ممکن بنانے کا گر ہے۔ پاکستان میں سیاستدان شاز و نادر ہی اس گر پر عمل کر سکے ہیں۔ یہاں تو ممکن کو ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف ) کو ایک سے زائد بار موقع ملا کہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے میں اپنی جماعت کو منظم کریں اور مقبول بنائیں ،لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ مسلم لیگ نے ہر موقع ضائع کر دیا۔ سن 13کے انتخابات میں لیگ کے اکا دکا امیدوار کامیاب ہوئے ان میں کراچی سے عرفان اللہ مروت بھی شامل ہیں۔ ان کا بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ لیگ کی قیادت سندھ میں لیگ کے رہنماﺅں اور کارکنوں سے ملاقات کرنے کا وقت ہی نہیں نکال پاتی ہے جس کی وجہ سے ایک جانب جماعت کی تنظیم متاثر ہو رہی ہے تو دوسری جانب اراکین اسمبلی اور رہنماءعدم اطمینان کا شکار ہو رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں نواز لیگ کے آٹھ اراکین موجود ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ لیگی قیادت سے ناراض ہیں۔ وفاقی کابینہ میں سندھ کی نمائندگی اس صورت میں موجود ہے کہ نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مرتضی جتوئی نے اپنی پارٹی کو انتخابات کے بعد لیگ میں ضم کردیا اور وفاقی وزیر مقرر ہو گئے۔ ان کے ایک بھائی سندھ اسمبلی کے رکن ہیں۔ پیر پگارو کی فنکشنل لیگ کے رکن قومی اسمبلی اور صوبائی فنکشنل لیگ کے سربراہ صدر الدین راشدی نواز شریف کی حمایت کرنے پر وفاقی کابینہ میں شامل کر لئے گئے تھے۔
سندھ کئی لحاظ سے نواز شریف کی لیگ کے لئے ایک مشکل صوبہ بنتا جارہا ہے۔ سید غوث علی شاہ بھی نالاں ہیں۔ جس کا اظہار وہ اپنی نجی محفلوں میں کرنے سے نہیں ہچکچاتے ۔ حالاں کہ وہ سندھ میں لیگ کو کبھی بھی منظم نہیں کرسکے۔ اپنی پسند اور نا پسند کے دائرے سے باہر آنے میں ان کی انا ہمیشہ ان کے آڑے آئی ہے۔ ان کے کئی فیصلوں سے لیگ کو فائدے کی بجائے نقصان ہی پہنچا ہے۔ انتخابات سے قبل سندھ نیشنل فرنٹ کے ممتاز بھٹو نے فرنٹ کو تحلیل کر کے لیگ میں شمولیت ااختیار کر لی تھی۔ ممتاز بھٹو کا تعلق لاڑکانہ سے ہے۔ ان کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو کو وفاق میں مشیر کا عہدہ دیا گیا جس سے انہوں نے گزشتہ دنوں استعفی دے کر وزیراعظم کے ساتھ اپنے والد کی ناراضگی کا عندیہ دیا۔ نواز شریف کے گزشتہ دور کے سابق وزیر اعلیٰ اور مشرف دور کے وفاقی وزیر لیاقت جتوئی نے بھی اپنی جماعت عوامی اتحاد پارٹی کے وجود کو ختم کر کے لیگ پر قربان کر دیا تھا۔ لیاقت جتوئی دادو سے تعلق رکھتے ہیں۔ بدین میں اسماعیل راہو کی نواز لیگ کے ساتھ دیرینہ وابستگی ہے۔ میر پور خاص اور نواب شاہ میں بھی لیگ کے حامی موجود ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ لیگ سے تعلق رکھنے والے سندھ کے تمام رہنماءاور کارکن ایک ہی وقت میں اپنی جماعت کی قیادت سے بدظن ہیں۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ پیپلز پارٹی اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات کی قائل نہیں ہے۔ یوں تو پارٹی میں اپنے کارکنوں کے لئے بھی گنجائش کم ہے لیکن کارکن چوں کہ پارٹی سے جڑا ہوا ہے اس لئے کہیں نہ کہیں شکایت کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال ہی لیتا ہے۔
ممتاز بھٹو ہوں یا لیاقت جتوئی، اسماعیل راہو ہوں یا سید غوث علی شاہ، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ لیگ کی قیادت انہیں وفاق میں کہیں نہ کہیں کھپائے گی تاکہ صوبے کے ساتھ ساتھ وہ ان کے ساتھ وابستہ افراد کو مطمئن کر سکیں کہ اقتدار کی راہ داریوں میں ان کا گزر بھی ممکن ہے۔ سن 13 میں جس نوعیت کے انتخابات ہوئے ، اس میں یہ تمام لوگ کسی نہ کسی وجہ سے شکست سے دوچار ہوئے ۔ ان لوگوں کی شکست کی کئی وجوہات ہیں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سیاست کو ان خاندانوں نے کاروبار کرنے والی کسی لمیٹڈ کمپنی کا درجہ دے دیا ہے۔ تمام لوگوں نے اکثر نشستوں پر اپنے ہی رشتہ داروں کو کھڑا کر دیا ۔ لمیٹڈ کمپنی طرز سیاست نے ملک بھر میں سیاست سے عام لوگوں کو لا تعلق کر دیا ہے۔ پھر انتخابات میں جس جانفشانی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت تھی اور صوبہ بھر میں پیپلز پارٹی مخالف عناصر اور قوتوں کو یکجا کر کے ایک منظم قوت بنانے کی ضرورت تھی اس سے یہ تمام لوگ محروم رہے جس کے نتیجے میں ان تمام لوگوں کو ناکامی کا سامنا کرنا بڑا۔ انتخابات کے بعد آئندہ انتخابات کے لئے انہیں اپنی ناکامیوں کی وجوہات تلاش کرنا چاہئے تھیں لیکن انہیں شکایات کے انبار لگانے سے فرصت ملے تو یہ ایسا کر سکیں۔ انہیں یہ احساس بھی نہیں کہ نواز شریف تمام شکست خوردہ رہنماﺅں کو کہاں کہاں کس طرح کھپا سکیں گے۔ کسی نے سمجھا کہ پاکستان کی صدارت اسی کے حصے میں آئے گی، کسی نے اپنے تئیں یہ تصور کر لیا کہ صوبہ سندھ کی گورنری کے لئے نواز شریف انہیں ہی نامزد کریں گے۔
بہر حال ہر ایک کی اپنی توقعات اور امیدیں۔ پاکستان میں تو سیاست دان امید سے ہی رہتے ہیں۔ ایسی امیدیں تو کئی سیاست دان کسی ممکنہ غیر آئینی نظام سے بھی باندھ لیتے ہیں۔ شارٹ کٹ یا جگاڑ پاکستانیوں کا محبوب مشغلہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہر ایک کو کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی سرکاری حیثیت کی ضرورت ہے کیوں کہ اس حیثیت سے ان کے کئی معاملات ان کے خیال میں سیدھے ہو جاتے ہیں۔ جنہیں سرکاری حیثیت بھی ملی تو انہوں نے بھی لیگ کو منظم کرنے کی سعی نہیں کی۔ غلام مرتضی جتوئی ہوں یا صدر الدین شاہ راشدی، ایک سال گزرنے کے باوجود ان دونوں اصحاب نے سندھ کا تفصیلی دورہ نہیں کیا۔ اگر کچھ دے نہیں سکتے تو اپنے مقامی رہنماﺅں اور کارکنوں کے ساتھ دو بول تو بول سکتے ہیں، ملاقات تو کر سکتے ہیں۔ اس تماش گاہ میں وہ سیاست اب کہاں رہی کہ گلی گلی، گاﺅں گاﺅں جایا جائے، لوگوں میں بیٹھا جائے، لوگوں کو اپنا ہمنوا بنایا جائے، کوئی تنظیم سازی کی جائے ۔ اب تو ہر ایک اسی امید سے ہے کہ اسے گھر بیٹھے تھالی میں کچھ مل جائے۔ بہت زیادہ کیا تو یہ کیا کہ ذرائع ابلاغ کا سامنا کر کے دوچار الفاظ بول دئے۔ سندھ میں لیگیوں اور ان کے ہمنواﺅں کا محبوب مشغلہ پیپلز پارٹی پر تنقید ہے۔ وہ تنقید کتنی ہی جائز کیوں نہ ہو لیکن اس تنقید سے لوگوں کے معمولات پر فرق نہیں پڑتا ۔ پیپلز پارٹی بھی اب کسی قسم کی تنقید کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ان کی قیادت نے بھی آنکھیں اور کان بند کر لئے ہیں۔ انہوں نے طے کر لیا ہے کہ انہیں تو انتخابات جیتنے کا گر آگیا ہے، سو ہم تو جیتیں گے کا کورس ہی گایا جائے خواہ اس کورس کے کتنے ہی بھیانک نتائج بر آمد ہوں۔
لیگ کی قیادت کو چاہئے کہ وہ سندھ میں صوبائی تنظیم کو از سر نو تشکیل دے اور نئے عہدیداروں کو تنظیم سازی کی ذمہ داری سونپی جائے۔ نواز شریف نے شارٹ کٹ اختیار کر لیا ہے کہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں ، جسے لیگ کے صوبائی رہنماء خود کشی کے مترادف تصور کرتے ہیں۔ لیگ کے ایک رہنماءسے آف دی ریکارڈ گفتگو ہوئی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ قیادت کی پالیسیوں کی وجہ سے لیگ کو سندھ میں ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچا ہے ،جس کی تلافی مشکل ہوجائے گی۔