پشاور
بابا گل سے
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کے لئے دو دن کا سفر باقی رہ گیا ہے ہفتہ 30 مئی شام کے بعد امیدواروں کی قسمت کے فیصلے سامنے آنا شروع ہوجائینگے صوبے بھر کے 84 ہزار 420 امیدوار خوف کے سائے میں اپنی مہم چلارہے ہیں سٹرکوں اور بازاروں میں کسی بھی امیدوار کی طرف سے کوئی بڑی سرگرمی یا اجتماع دیکھنے کو نہیں ملا جیساکہ 2001 سے پہلے کے انتخابات میں ہوا کرتاتھا اس مرتبہ سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے ا نتخابی دفاتر بھی اِکا دُکا اور برائے نام دیکھنے کو ملے جہاں اکثر ویرانی چھائی رہتی ہے اس خوف میں بنیادی وجہ سیاسی امیدواروں یا ان کے اجتماع پر ممکنہ دہشت گرد حملے کی اطلاع میں یہ واضع کیا گیا تھا کہ پشاور سمیت صوبے بھر انتخابی سرگرمیاں زوروں اور دہشت گرد کارروائیوں کے خدشات عروج پر ہیں اتفاق سے جس روز وہ ڈائری شائع ہوئی اسی روز علی الصبح دہشت گردوں نے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈی ایس پی بہادر خان کو گلبہار کے علاقے میں اسکی نو عمر بیٹی کے سامنے شہید کیا جب وہ اپنی بیٹی کو سکول چھوڑنے جارہے تھے اس کے بعدحیات آبادمیں مخصوص ملک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹراس کے دو بیٹوں اورایک ملازم کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ تمام افراد نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد واپس جارہے تھے۔ اس کاروائی میں ڈاکٹر کا ایک بیٹا اور ملازم جاں بحق جبکہ وہ خود دوسرے بیٹے سمیت شدید زخمی ہوئے اس سے چند روز قبل اندرون شہر کے وسطی علاقے پیپل منڈی میں عوامی نیشنل پارٹی کے سابق کونسلر اور مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما عابد حسن کو بھی نشانہ بنایا گیا اسی دوران پولیس کے ایک سب انسپکٹر کو بھی دہشت گردوں نے اپنے نشانے پر لیا حالات کی نزاکت اور خفیہ اطلاعات کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر تے ہوئے ہر قسم کے جلسوں اوراسلحہ کی نمائش سمیت موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر ایک ماہ کے لئے باپندی لگا دی۔
صوبائی حکومت نے پولیس فورس میں نفری کی کمی کے پیش نظر فوج اورایف سی کی خدمات طلب کرلیں۔ فوج کے آتے ہی پیر کی علی الصبح 3 بجے پشاور کے ان علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کیا گیا جو ٹارگٹ کلروں اوردہشت گردوں کا گڑھ مانے جاتے ہیں اس اپریشن کے دوران سٹی سرکلر روڈ پر یکہ توت کے قریب سٹرک دن بھر بند رہی فوج اور پولیس کی مشترکہ کارروائی میں کئی اہم دہشت گردوں کو حراست میں لے لیاگیا، مگراس کارروائی کے باوجود پشاور کے شہریوں اور سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کے دل ودماغ سے خوف کی کیفیت ختم نہیں کی جا سکی بیشتر لوگ سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کا پر امن ماحول اختتام کسی معجزئے سے کم نہ ہوگا۔ بہر حال مارئے جانے کا خوف اور جیت کی تمنا کے ساتھ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اپنی منزل کے قریب تر پہنچ چکے ہیں ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف صوبائی دارالحکومت سمیت طول وعرض تک اپنی گرفت مضبوط کرناچاہتی ہے تحریک انصاف کے اتحادیوں میں جماعت اسلامی اورعوامی جمہوری اتحادشامل ہیں تاہم عوامی جمہوری اتحاد کا اثر روسوخ صرف ضلع صوابی میں پایا جاتا ہے، جبکہ جماعت اسلامی بیشتر اضلاع میں اپنا اس قدر ووٹ بنک رکھتی ہے کہ اگر اس کا ووٹ حقیقی معنوں میں استعمال ہو تو تحریک انصاف کی پوزیشن واضع طور پر نمایاں ہو سکتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا اتحاد ہے، مگر ملک کے بعض دیگر حلقوں کی طرح پیپلز پارٹی کی مقبولیت خیبرپختونخوا میں بھی تشویشناک حد تک کم ہوئی ہے، جبکہ اے این پی بھی بعض اپنے کنفرم حلقوں سے محروم ہوچکی ہے دونوں پارٹیاں اپنا کھویا ہوامقام حاصل کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً لائحہ عمل تبدیل کرتی رہتی ہیں اور اب جے یو آئی کے ساتھ مل کر سہ فریقی اتحاد کے پلیٹ فارم سے اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کررہے ہیں۔
صوبے بھر میں بلدیاتی امیدواروں کی نشستیں 40 ہزار کے لگ بھگ ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے 84420 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں جنرل کونسل 23111 خواتین مزدوروں کسان نوجوانوں اور اقلیتوں کی نشستوں پر 16965 امیدوار اپنی مہم چلا رہے ہیں پشاور کی 4520 نشستوں پر 9953 امیدوار مدمقابل ہیں پشاور کے 14 لاکھ 81 ہزار ووٹرز امیدوار کا انتخاب کرائیں گے، جس کے لئے پشاور میں 1030 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں سیکیورٹی کے لئے 15 ہزار کے لگ بھگ اہلکار تعینات کئے جائیں گے۔ دلچسپ اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ پھر متعدد جرائم پیشہ اور قبضہ مافیا کے عناصر بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں الیکشن کمشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سابق سینئر وزیر سینٹر سراج الحق سمیت کئی وزراء اوراراکین اسمبلی کو نوٹسز جاری کئے جو کہ اپنے ترقیاتی فنڈز کے ذریعے اپنے حامی امیدواروں کے حق میں مہم چلا کر ترقیاتی سکیموں کے اعلانات کرتے تھے اورانتخابی عمل پر اثرانداز ہوتے تھے آخری اطلاعات کے مطابق سینیٹر سراج الحق اور صوبائی وزراء نے الیکشن کمشن کے روبرو پیش ہو کر معافی مانگ لی اورمعاملہ رفع دفع کردیا تاہم تمام اہم سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مذہبی قائدین کمال مہارت کے ساتھ ورکرز کنونشن یوتھ کنونشن اور دیگر موضوعات کے ساتھ اجتماعات منعقد کرکے اپنے امیدواروں کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری بھی پشاور آئے اوریوتھ کنونشن کے نام پراجتماع سے دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی حکومت پر سخت تنقید کی اے این پی کے مرکزی قائد اسفند یار ولی خان اور جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق بھی اس طرح کے اجتماعات سے خطاب کررہے ہیں ۔جے یو آئی بنوں اور ڈیرہ میں دستاربند ی کے نام پر تقاریب کا انعقاد کر کے اپنے حامیوں کی مہم چلا رہی ہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خیبرپختونخوا میں اپنے جلسوں کے طویل شیڈول کااعلان کیا مگر عین وقت پرالیکشن کمشن کی طرف سے پابندی عائد کئے جانے کے باعث تمام شیڈول منسوخ کر دیا تاہم وزیراعلی پرویز خٹک لوڈشیڈنگ اقتصادی راہداری اوروفاق سے صوبائی حقوق کے حصول کو بنیاد پنا کر شعلہ بیانی کررہے ہیں ان کے بیانات عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ثابت ہورہے ہیں جس کا انہیں عوام کی طرف سے مثبت رد عمل مل رہا ہے جس کا براہ راست فائدہ بلدیاتی امیدواروں کے کھاتے میں جارہا ہے۔