زمانہ قدیم سے لیکر تاحال حضرت سیدنا نوشہ کے علمی واصلاحی جہاد کو زوال نہیں آیا ۔یہ آپؒ کی زندہ کرامت ہے کہ اس خانوادہ میں درس وتدریس اور مبلغانہ خدمات کا تسلسل جاری رہا ہے اور آج سلسلہ نوشاہیہ کی اشاعت کا فریضہ حضرت پیر سید معروف حسین شاہ قادری نوشاہی ادا کررہے ہیں۔ساٹھ کی دہائی میں اپنے بڑے بھائی اور مرشد گرامی حضرت برقؒ کی ہدایت پر انہوں نے برطانیہ کو اپنا مرکز ہدایت بنایا اور اسلام کا نور ہدایت پھیلانے لگے۔ عہد حاضر میں پاکستان بالعموم اور یورپ میں بالخصوص تحریک احیائے دین کے روح رواں عالمی مبلغ اسلام فکر اہلسنت حضرت پیر سیّد معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی مدظلہ العالی گزشتہ ساٹھ سال سے دین اسلام کی ترویج و ترقی میں دن رات مصروف کار ہیں۔
یورپ کے مسلمانوں میں دین اسلام کا شعور پیدا کرنے میں آپ نے جو دینی فریضہ سر انجام دیا ہے اس سے تاریخ اسلام میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ آپ مجدد اعظم قدس سرہ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں مجدد اعظم قدس سرہ سے ملتا ہے ۔ آپ ایک انتہائی بردبار جید عالم دین، مبلغ اسلام، داشنور ، فقیہ ، محقق، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ آپ نے 25سال ٹیکسٹائل ملز میں محنت و مزدوری کی۔ اپنا تمام مال و اسباب اور وقت دین اسلام کی اشاعت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ آپ کی نگرانی میں اس وقت عظیم الشان مساجد و مدارس کام کر رہے ہیں جہاں سے سینکڑوں طلباء و حفظ قرآن اور اسلامی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ آپ اہلسنت کی کتب کی اشاعت سے بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور بہت سی کتب کی اشاعت کا انتظام کیا ہے۔ پاکستان میں فتاویٰ رضویہ کی طبع جدید میں اکثر سرمایہ آپ ہی نے فراہم کیا ہے۔ آپ کو کتب بینی کا انتہائی شوق ہے۔ گزشتہ پچا س سالوں میں آپ نے اسلامی کتب پر مشتمل ایک عمدہ قسم کا کتب خانہ قائم کیا ہے۔ جو ذاتی اسلامی کتب خانوں میں منفرد ہے۔
حضرت پیرسید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی کی دینی علمی خدمات پر معروف شاعر و صحافی منصور آفاق لکھتے ہیں’’میں نے جب اپنے ایک دوست سے پیر صاحب پر کتاب لکھنے کا وعدہ کیا تھا تویہ بات طے پائی تھی کہ اس کے سر ورق پر میرا نام نہیں ہوگا لیکن جب میں نے کام کیا تو میں نے کہا کہ مجھے اس کتاب کے سرورق پر اپنا نام لکھتے ہوئے فخر محسوس ہوگا کیونکہ یہ ایک ایسی شخصیت کی سرگزشت ہے جس نے صدیوں بعد مغرب کی گلیوں میں محمد الرسول اللہ کا ورد کیا ہے اور کرایا ہے۔ مادیت پرست معاشرے کی بدبو دار اور گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں روشنی اور خوشبو کی ترسیل کی ہے۔
میں جب پہلی بار اپنے اخبار کے انٹرویو کے لیے پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی کے پاس گیا تو مجھے حیرت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اٹھارہ ساؤتھ فیلڈ اسکوائر کوئی ایسی جگہ نہ تھی جو کسی پیر کی رہائش کے لیے موزوں کہی جا سکے۔ وہاں توکسی مل کے مزدور کا مکان ہو سکتاہے میں جب مکان کے اندر داخل ہوا تو چھوٹے سے ایک کمرے میں پیر صاحب زمین پر بیٹھے ہوئے کوئی کام کر رہے تھے۔ ان کے سامنے بہت سی فائلیں پڑی ہوئی تھیں۔ میں نے غور سے کمرے کا جائزہ لیا تو وہ کمرہ اتنا چھوٹا تھا کہ چھوٹی چھوٹی دو سیٹوں کے رکھ دینے کے بعد وہاں کوئی اور فرنیچر شاید ڈھنگ سے نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ اسی کے اندر ایک طرف سینک بھی لگا ہوا تھا۔ سیٹوں کی حالت یہ بتاتی تھی کہ شاید پیر صاحب نے اپنی جوانی کے دنوں میں خریدی تھیں، کیونکہ وہ بھی پیر صاحب کے ساتھ ساتھ اب بوڑھی ہو چکی تھیں۔ ایک میز بھی پڑی تھی جس پر ایک بار استعمال کیے جانے والے کچھ کاغذی برتن پڑے ہوئے تھے۔ پرانے زمانے کا گیس ہیٹر جل رہا تھا۔ سنٹرل ہیٹنگ کی کوئی لوہے کی دوہری چادر کسی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ دیواروں پر سلسلہ نوشاہیہ کے شجرے اور اشتہار لگے ہوئے تھے ۔کچھ تصویروں کے فریم بھی تھے۔ دیواروں کا وال پیپر صاف ستھرا تھا مگر بہت پرانے زمانے کے ڈیزائن کا تھا۔
(جاری ہے، اگلی قسط یعنی قسط نمبر 69 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔