پی ٹی آئی کے اندر بے چینی

پی ٹی آئی کے اندر بے چینی
پی ٹی آئی کے اندر بے چینی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریک انصاف کے رہنماء قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ان کے اندر ہوش ’’مر‘‘ اور جوش بڑھ رہا ہے۔ مراد سعید جن کے بارے میں ’’کل‘‘ تک عمران خان کی رائے تھی کہ ایسے نوجوان ہی پارٹی کے مستقبل کے لیڈر ہیں،مگر یہ ان دِنوں کی بات ہے، جب عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ساری زندگی پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر نہیں رہیں گے، آنے والے وقت میں مراد سعید جیسے لوگ پارٹی کی قیادت کریں گے، پارٹی قائد کے یہ الفاظ مراد سعید کے لئے جوش کا باعث بنے اور انہوں نے خود کو مزید نمایاں کرنے کے لئے ابتدا میں گالی گلوچ اور پھر ہاتھا پائی شروع کر دی، مخالف سیاست دانوں پر قومی اسمبلی اور مختلف نیوز چینل پر اُچھل اُچھل کے ہاتھ اُٹھانے کی ابتدا انہوں نے کی۔

بدقسمتی سے عمران خان نے مراد سعید کی حوصلہ افزائی کی اور یوں وہ روزانہ کسی نہ کسی سے اُلجھتے نظر آئے۔ تین ماہ قبل انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے ایک بزرگ ایم این اے پر باقاعدہ حملہ کر دیا یہ تو شکر ہے کہ موقع پر موجود دیگر ایم این ایز نے بزرگ ایم این اے کو مراد سعید کے نوجوان ’’ہاتھوں‘‘ سے بچایا۔

اب دوسرا واقعہ تحریک انصاف کے ایک بزرگ قسم کے رہنما نے دہرایا۔نعیم الحق نے دانیال عزیز کے ساتھ ایک نیوز چینل پر دورانِ گفتگو ان کے چہرے پر تھپڑ دے مارا جواباً دانیال عزیز حیرانی سے اُن کا چہرہ تکتے رہے۔

تحریک انصاف درحقیقت سیاست میں ایک ’’نیا کلچر‘‘ متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے،یعنی اگر مخالف حریف کسی بھی الزام کا جواب دلیل کے ساتھ دے تو اس پر حملہ کر دیا جائے،تاکہ وہ بولنے کے قابل ہی نہ رہے۔

تحریک انصاف کے اندر درحقیقت بہت ’’فرسٹریشن‘‘ ہے۔ بعض رہنما تو اچھے خاصے ’’نفسیاتی مریض‘‘ بن چکے ہیں انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کریں۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف بطور جماعت بہت مضبوط ہو چکی ہے،مگر درحقیقت جماعت اندر سے بہت کمزور ہو چکی ہے، جماعت کے اندر نظریات ہی نہیں شخصیات کے درمیان بھی ’’تناؤ‘‘ موجود ہے۔

ایک گروپ جو کہ گزشتہ بائیس سال سے تحریک انصاف کے ساتھ ’’دھکے‘‘ کھا رہا ہے، سب سے زیادہ مایوس ہے،یہ مایوس کارکن پریشان ہیں کہ پارٹی میں ان کا مستقبل کیا ہے۔ فوزیہ قصوری جس نے لاہور جیسے شہر میں پارٹی کے لئے دن رات کام کیا، پورے شہر میں گلی گلی پھر کے پارٹی پیغام پہنچایا مگر اب مایوسی اتنی بڑھی کہ انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس مقصد کے لئے پارٹی بنائی گئی تھی، پارٹی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔

ایک مخصوص گروپ پارٹی پر قبضہ کر چکا ہے اور عمران خان صاحب ’’بدل‘‘ چکے ہیں۔ میرے نزدیک فوزیہ قصوری ان درجنوں ’’وکٹوں‘‘ پہ بھاری ہیں جو کسی نظریے سے زیادہ ایک عدد ٹکٹ کے لئے اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں،عمران خان نے فوزیہ قصوری کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے۔گویا انہوں نے فوزیہ کے موقف کی تائید کر دی ہے کہ وہ واقعی بدل چکے ہیں۔

اگر عمران خان ایک سچے کھرے لیڈر ہوتے تو پہلی فرصت میں فوزیہ قصوری کے ساتھ ملاقات کرتے، ان کے تحفظات دور کرتے اور پارٹی میں ان کے کردار کو آگے بڑھاتے،مگر انہوں نے ایک محنت سے کام کرنے والی خاتون کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور انہیں پارٹی سے جانے دیا۔ بظاہر فوزیہ کے جانے سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر فوزیہ کا جانا ہزاروں مخلص کارکنوں کے لئے ایک پیغام ہے۔

تحریک انصاف کے لئے سڑکوں پر مار کھانے والے کارکنوں کے اندر بے چینی پیدا کر سکتا ہے اور آنے والے دِنوں میں تحریک انصاف ’’لیڈروں‘‘ سے تو بھر جائے گی، مگر کارکنوں سے ’’خالی‘‘ ہوتی نظر آتی ہے، پارٹی کے اندر بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ابھی گزشتہ روز جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان ’’اوے توے‘‘بھی ہوئی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ’’اوے توے‘‘ دو شخصیات کا مسئلہ نہیں ہے، درحقیقت یہ دو بڑے گروپوں کے درمیان کا جھگڑا ہے، جہانگیر ترین ’’نااہل‘‘ ہونے کے باوجود جماعت کے غیر اعلانیہ سیکرٹری جنرل ہیں۔عمران خان ان کی پارٹی ’’خدمات‘‘ کی وجہ سے ان کی کسی بھی بات سے ’’انکار‘‘ نہیں کر سکتے، جہانگیر ترین نے کہا ہے اور بجا طور پر کہا ہے کہ وہ پارٹی کے سب سے بڑے ’’فنانسر‘‘ ہیں۔ انہوں نے پارٹی پر ’’مال لگایا‘‘ ہے اور ہر طرح سے قربانی دی ہے،یعنی جہانگیر ترین بتا رہے ہیں کہ کسی کو زیادہ ’’چوں چاں‘‘ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مَیں نے اگر پارٹی پر سے ہاتھ اُٹھا لیا تو پھر پارٹی چلا کے دکھانا، سو انہوں نے اِس موقع پر یہ بھی کہا کہ اگر مجھ پر کسی کو اعتراض ہے تو مَیں گھر چلا ’’جاتا ہوں‘‘۔ میرے مخبر کی اطلاع ہے کہ جہانگیر ترین اس موقع پر اپنا ’’بریف کیس‘‘ اٹھا بھی چکے تھے،مگر عمران خان نے انہیں روک لیا۔ سو اب جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ وہ صرف عمران خان کو وزیراعظم بنانے تک موجود ہیں، جس دن عمران خان وزیراعظم بن گئے وہ چلے جائیں گے۔ جہانگیر ترین کا یہ بیان خاصا دلچسپ ہے،یعنی ایک ایسا شخص جو اپنی تمام تر دولت لٹانے کے باوجود اپنے بیٹے کو ایم این اے نہیں بنوا سکا وہ عمران خان کو وزیراعظم کیسے بنوائے گا؟ کیا جہانگیر ترین جن لوگوں کو پارٹی میں لا رہے ہیں۔۔۔ ٹکٹ کے ساتھ کچھ اور بھی ’’دے‘‘ رہے ہیں۔۔۔ اب اگر جہانگیر ترین ٹکٹ کے ساتھ کچھ ’’اور‘‘ بھی ’’دے‘‘ ہے ہیں تو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ ’’خرید و فروخت‘‘ کا یہ دھندہ وہ عمران خان کی ’’مرضی‘‘ سے کر رہے ہیں۔ پارٹی اجلاس کے دوران شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا، اگر آپ یہی کچھ کرتے رہے تو پھر نہ تو عمران خان وزیراعظم بن سکے گا اور نہ آپ وزیراعلیٰ پنجاب۔ مزید کہا کہ جنوبی پنجاب ’’صوبہ محاذ‘‘ کے لوگوں کو پارٹی میں، مَیں لایا ہوں۔ شاہ محمود قریشی صاحب آپ کی ڈیوٹی سندھ سے ’’بندے‘‘ توڑنے کی تھی۔

آپ تو وہاں سے ایک ’’بندہ‘‘ نہیں لا سکے۔
دونوں رہنماؤں کے اس ’’مکالمے‘‘ کی بہت اہمیت ہے، جس کے اثرات چند دِنوں تک سامنے آئیں گے۔

اب جہانگیر ترین گروپ اور قریشی گروپ کے درمیان ٹکٹوں کے معاملے پر جھگڑے ہوں گے، جہانگیر ترین بڑے ’’سپانسر‘‘ کے طور پر زیادہ سے زیادہ ٹکٹیں ’’اپنے بندوں‘‘ کو دلوانے کی کوشش کریں گے۔ادھر شاہ محمود قریشی اپنے گروپ کے لئے ’’زور آزمائی‘‘ کریں گے۔

یہ ’’معاملہ‘‘ بہت دور تک جائے گا اور ایسے موقع پر کہ جب الیکشن سر پر ہیں اگر دونوں رہنماؤں نے آپس میں ’’جنگ‘‘ چھیڑ دی تو پھر عمران خان کا کیا بنے گا، کیونکہ عمران خان کا حقیقی گروپ وہی ہے، جو پہلے دن سے اس کے ساتھ ہے، مگر اب مایوس ہے اور پارٹی چھوڑ رہا ہے،یعنی عمران خان اس وقت جہانگیر ترین گروپ اور شاہ محمود قریشی کے سہارے پر ہے۔۔۔ اور پارٹی میں شامل ہونے والے تمام لوگ یا تو جہانگیر ترین کے ہیں یا پھر شاہ محمود قریشی کے۔ عمران خان تو ان میں سے بعض کے نام تک نہیں جانتا۔

یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس ضلع کے کون سے حلقے سے ہیں۔یہ ایک دلچسپ صورتِ حال ہے۔

آنے والے دنوں میں ایسا ماحول بھی بن سکتا ہے، جو ٹیلی ویژن چینلز پر دانیال عزیز اور نعیم الحق نے بنایا، مگر اب یہ ماحول خود پی ٹی آئی کے اجلاسوں میں دیکھا جائے گا،یعنی ہاتھ بھی پی ٹی آئی کا اور چہرہ بھی پی ٹی آئی کا ہوگا،چند ہفتوں کی بات ہے۔

مزید :

رائے -کالم -