انتخابات کا التوا ۔۔ ؟
بھولے نے پوچھا، انتخابات ملتوی ہونے کے اب کتنے امکانات باقی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ بعض حلقوں کے لئے نواز شریف کے بیانئے کی مقبولیت قابل قبول نہیں ہے لہذا وہ ایسا رسک نہیں لینا چاہتے کہ جس سے مسلم لیگ نون دوبارہ اسمبلی میں اکثریتی جماعت بن کے سامنے آئے، بھولے کے پاس انفارمیشن تھی کہ اعلیٰ سطح پر ہونے والی ایک جمع تفریق میں مسلم لیگ نون کو قومی اسمبلی کی ساٹھ سے ستر نشستیں ملنے بارے یقین ظاہر کیا گیا ہے۔
بھولے نے نئی کنگز پارٹی کے ایک اہم لیڈر سے ملاقات کے بعد میرے اندر انفارمیشن انڈیلتے ہوئے بتایا کہ کنگز پارٹی بھی اس وقت انتخابات کے التوا کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے کہ اگر اس نے انتخابات کے التوا کی حمایت نہ کی تو یہ بغاوت اسے مہنگی پڑسکتی ہے۔
کنگز پارٹی کا خیال ہے کہ وہ اتنی سیٹیں لے لے گی کہ وفاق میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکے مگر سوال یہ ہے کہ موجودہ کنگزپارٹی اس کے لئے پیپلزپارٹی سے بھی اتحاد کر سکتی ہے، آصف علی زرداری اس بارے گرین سگنل دے چکے ہیں مگر دوسری طرف کنگزپارٹی زیادہ فاسٹ ہے، وہ گرین سگنل دئیے بغیر ہی سینٹ کے انتخابات میں یہ کام کر چکی ہے۔
عام انتخابات کے التواء کی خواہش نما افواہ کا محل وقوع عجیب وغریب ہے، یہ اس وقت سے کی جا رہی ہے جب تحریک انصاف قبل از وقت انتخابات کے لیے شور مچا رہی تھی۔ میاں نواز شریف کی نااہلی سے پہلے بھی اور اس کے بعد سینٹ کے انتخابات سے پہلے بھی، یہی کہا جارہا تھا کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی اور ایک ایسی نگران حکومت قائم کر دی جائے گی جو ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوگی اور اس کی مدت دو سے تین ماہ نہیں بلکہ دو سے تین برس ہو گی۔
فرشتوں کی یہ حکومت گناہ گاروں کا صفایا کرے گی اور اس کے بعد صادق اور امین منتخب کروا لیے جائیں گے مگر دھرنے گزرے اوردھرنوں کے بعد پاناما کیس بھی گزر گیا، عدالتی فعالیت بھی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے مگر اس جو ڈیشل ایکٹوازم میں بھی ایک بار نہیں بلکہ بار بار آئین کی پاسداری اور جمہوریت کی حفاظت کا عزم دہرایا جارہا ہے۔
آئین اور جمہوریت میں ایسی کسی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ انتخابات سے پہلے ایک نگران حکومت کے قیام کا بوجھ بھی ہم ہی اٹھائے پھر رہے ہیں دنیا بھر میں اس روایت کا خاتمہ کیا جا چکا، ان معاشروں اور ریاستوں میں بھی جہاں پولرائزیشن ہماری سوسائٹی سے بھی کہیں زیادہ ہے اور عین نظریاتی ہے، بہرحال اچھا ہے یا برا، ہمارے پاس آئینی طور پرساٹھ روز کے لئے ایک نگران حکومت کاہی آپشن ہے ۔
انتخابات ملتوی کرنے کا سوال چکوال اور لودھراں کے ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھتے ہوئے بھی پوچھا جا رہا ہے تویہاں میاں نواز شریف کے وہ جلسے بھی اہم ہیں جو انہوں نے اپنی نااہلی کے بعد شروع کئے، ان جلسوں میں عوام کی شرکت اور جذبات دونوں ہی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہیں۔انتخابات سے پہلے ایک اور اہم مرحلہ ہے اور وہ میاں نواز شریف کے مقدمے کا فیصلہ ہے۔
کیا عدالتی کارروائی کا بغور جائزہ لیتے ہوئے یہ امکان ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ میاں نوا ز شریف اس مقدمے سے باعزت بری ہوجائیں گے، قانون کی جگہ اپنی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا امکان بہت کم ہے۔
میاں نواز شریف کی سزا سے دو امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں، پہلا یہ ہے کہ جب وہ جیل جائیں گے تو ان کی مظلومیت ثابت ہو جائے گی۔ یہ ثابت ہو جائے گا کہ انہیں ایوان وزیراعظم سے نکالنے سے جیل کی کوٹھڑی تک پہنچانے والوں کی اپنی ایک منصوبہ بندی ہے جس کے بعد ان کی مقبولیت ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دے گی کیونکہ پاکستانی قوم عمومی طور پر ظالموں کی بجائے مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے مگر دوسری طرف ایک نظریہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہے، میاں نواز شریف کے سوال مجھے کیوں نکالا پر اس لئے کان دھر رہے ہیں کہ انہیں محض ایک اقامے پر نکالا گیا جو ورک ویزا سمجھا جا سکتا ہے، وہ قائل ہوجائیں گے کہ میاں نواز شریف نے کرپشن کی تھی جو ثابت بھی ہو گئی۔
میرا اندازہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے ووٹرز اب کرپشن کے الزامات ( پر ہونے والے فیصلوں) پر دھیان نہیں دیں گے، ان کی بھاری اکثریت نے اس سے پہلے توہین رسالت اور غداری کے الزامات کو بھی مسترد کرتے ہوئے شیر پر مہریں اور ان کے جلسوں میں پرجوش نعرے لگائے ہیں۔یہاں ہمیں مریم نوا ز شریف کے معاملے کو بھی دیکھنا ہے جنہوں نے اپنی قیادت پارٹی کارکنوں سے تسلیم کر والی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف کو سزا سنا کے جیل بھیجا جاتا ہے توکیا نواز شریف کی بیٹی آزاد چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ باپ کے نام پر شہر شہر میں جلسے کرتی پھرے اور اگر انہیں آزاد نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ باپ کی طرح جیل میں ڈال دیا جائے گا تو نواز شریف کے مخالفین کو اس کی بھی ایک قیمت چکانا پڑے گی۔
عام انتخابات سے پہلے اسی قسم کا منظرنامہ ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے اس دور میں الیکٹ ایبلز کی سیاست دم توڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
یہ انتخابات مختلف ماحول میں ہونے جا رہے ہیں ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اب تک کی جانے والی پولیٹیکل انجینرنگ شائد کسی حد تک کام کرے اور مسلم لیگ نون کی راہ کو کسی حد تک روکنے میں کامیابی مل جائے لیکن اگر انتخابات کو ملتوی کیا گیا تو یہ ساری پولیٹیکل انجینئرنگ ہوا میں اڑ جائے گی۔
مقتدر حلقوں کی زبان بولنے والی سیاسی جماعتوں کی حیثیت ایک دم قاف لیگ والی ہو جائے گی ۔ ا س وقت مسلم لیگ نون حکومت اور اپوزیشن دونوں کر رہی ہے مگر پھر مسلم لیگ نون صرف اپوزیشن کرے گی جو روایتی نہیں ہو گی اور کنگز پارٹیوں کو مفت میں ایک غیر آئینی سیٹ اپ کا بوجھ اٹھانا پڑجائے گاجو ان کی کمر توڑ کے رکھ دے گا۔
میرا اندازہ تو یہی ہے کہ جو قوتیں ابھی تک بھولوں کو پیغام دے رہی ہیں کہ انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں، یہ فیصلہ خود ان کے لئے بھاری پڑجائے گا۔ نواز شریف کونکالنے والوں کا خیال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نواز شریف آج سے پہلے بہت سارے نکالے جانے والوں کی طرح خاموشی سے گھر چلے جائیں گے تو یہ خیال غلط ثابت ہو چکا ہے۔
اس وقت بھی تمام غیر جانبدار سروے ثابت کر رہے ہیں کہ پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ نون کی حکومت بنے گی لیکن اگر انتخابات ملتو ی ہوئے تو انتخابی مہم ایک تحریک کی صورت اختیار کر لے گی جس میں بہت کچھ بہہ جائے گا۔