دوسرا بیلٹ اینڈ روڈ فورم
25اپریل 2019ءکو چین میں دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا افتتاح ہوا۔ اس پر شکوہ تقریب میںون بیلٹ ون روڈ (اوبور)کے تحت ہونے والی ترقی کا مشاہدہ کرنے کے لئے دنیا بھر سے نمائندگان کو مدعو کیا گیا تھا۔ یہ سی پیک کے تحت جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پروگرام تھا۔ اس تقریب میں 150ملکوں کے نمائندے اور 37سربراہانِ مملکت شریک ہوئے ۔ اوبور کے تحت کرہئِ ارض کے تمام ممالک کو شامل کرتے ہوئے صدیوں پرانی شاہراہِ ریشم کی تجدید کی گئی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک نے مختلف ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ نے اسے خاص توجہ نہیں دی جبکہ یورپ کے دوسرے ممالک اس حوالے سے خاصی گرم جوشی دکھا رہے ہیں جنوبی ایشیائ، مشرقی ایشیاءاور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بیلٹ اینڈ روڈ کے اس منصوبے کی بڑی حمایت کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ مثبت اور منفی تاثرات کی ایک کہانی ہے۔ پاکستان کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بڑی اہمیت حاصل ہے بیلٹ اینڈ روڈ فورم نے ایک پیغام یہ بھی دیا کہ اس کی کامیابی کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک بہت پر جوش ہیں۔
اگر کوشش کی جائے کہ اس کی کامیابی کو پرکھا جائے تو اس کا تجارتی حجم 80ارب ڈالر سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ دوسرے فورم کا عنوان”پورے کرہئِ ارض کا تعاون تھا“۔ 10آسیان ممالک کے سربراہ بھی بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کی ترقی سرمایہ کاری اور اس کے منافع جات کے لیے تیار تھے۔ اس کی ایک اور کامیابی اس فورم میں سینٹرل ایشیا کے ایک اہم ملک کرغزستان کی شرکت تھی اس فورم کو اقوامِ متحدہ کا مکمل تعاون حاصل تھا کیونکہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی وہاں موجود تھے۔ بظاہر اقوامِ متحدہ کی موجودگی اس وجہ سے تھی کہ بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ قومیت کو فروغ دینے کی بجائے بین الاقوامیت پر زور دے رہا ہے۔
چین کی قومی ترقی کے نائب سربراہ نے کہا ”ہم ایک کھلا منظم ، معیاری اور بین الاقوامی پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہتے ہیں جہاں ایک منصفانہ اور متوازن بین الاقوامی نظام کام کر سکے“۔ 37 سربراہانِ مملکت اور 150ملکوں کے نمائندے ان جزئیات کو طے کرنے میں لگے تھے جو اگلے پانچ سالوں میں ترقی کی نوک پلک سنواریں گے۔ چنانچہ یہ ایک جامع تقریب تھی جس نے ساتھی ملکوں میں اعتماد کی فضا قائم کی تاکہ سرمایہ کاری کے لئے فضا ہموار ہو سکے۔
اس فورم کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہاں یورپی ممالک کے سفارت کار بھی موجود تھے۔ اس فورم کی پہلی تقریب جو 2017ءمیں منعقد ہوئی، میں یورپی ممالک جیسے فرانس جرمنی پرتگال اور ناروے کو چین کے وسعتی اقدامات پر تحفظات تھے اب کیونکہ یورپ کی اقتصادیات زوال پذیر ہیں لہٰذا بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ انہیں ایک بہترین راستہ نظر آتا ہے۔ 37میں سے 12سربراہان ِ مملکت یورپ سے تھے۔ چین نے بڑی کامیابی کے ساتھ یورپی ممالک کو اس پروگرام میں شامل کیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال اٹلی اور پرتگال کے ساتھ اس کے اربوں ڈالر کے معاہدے ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ یورپ تک پہنچ گیا ہے اور اس کی شاخیں پہلے سے زیادہ تنومند نظر آتی ہیں۔
دنیاوی اور مقامی امدادِ باہمی جو ممالک کے درمیان ہوگی وہ دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا مرکزی خیال تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی تجارت اور ڈبلیو ٹی او کی حوصلہ شکنی کی ۔ ٹیرف بڑھا کر بین الاقوامی تجارت کی حوصلہ شکنی کرنا یورپ کا حالیہ اقدام ہے۔ برطانیہ نے یورپی یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ بریگزٹ سے باہر کے ممالک کی طرف تجارت کے لئے دیکھ رہا ہے۔ ہندوستان نے پلوامہ حملہ کے بعد پاکستان سے برآمدات پر 200فیصد ٹیرف بڑھا دیا۔ ایسے ہی اقدامات ہمیں افریقہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی امریکہ میں دیکھنے کو نظر آ رہے ہیں۔ ایسے تاریک ماحول میں بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ روشنی کی ایک کرن اور تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔
دوسرا بیلٹ اینڈ روڈ فورم تجدیدِ عہد تھا کہ بین الاقوامیت کو ایک اور موقع ملنا چاہیے یقینا، بین الاقوامیت، علاقائی تجارت اور کاروبار کے ساتھ ساتھ ہی چل سکتی ہے۔ شروع شروع میں بین الاقوامیت کے بارے میں ایسا لگتا تھا جیسے یہ چین جیسی ابھرتی سپر پاور کی نوآبادیاتی چال ہے لیکن اب دنیا کو یہ سوچ بدلنا پڑے گی۔ اب بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے پیچھے فلسفہ یہ نظر آتا ہے کہ بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ثقافتی، اقتصادی اور ارضیاتی بندھنوں کو مضبوط کیا جائے۔
یہ فقط تجارت ہی نہیں بلکہ باہمی رابطوں کو بڑھانے کا ایک سلسلہ ہے۔ پاکستان اب بھی مرکزیت کا حامل ہے بہت سی ترقی ہو چکی اور ابھی بہت سا سفر باقی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے سی پیک سے وابستہ بہت سی شرائط کا ازسرِ نو جائزہ لیا ہے۔ پاکستان میں کچھ ماہرینِ اقتصادیات نے اسے قرض کے نئے جال سے تعبیر کیا، لہٰذا موجودہ حکومت نے سی پیک کو دونوں ممالک کی باہمی منفعت کا ضامن بنا دیا ہے۔
چینی کمپنیوں کو جو ٹیکس کی چھوٹ دی گئی تھی اس پر دوبارہ سے غور کیا جار ہا ہے۔ دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں انہی موضوعات پر کھل کر بات کی گئی۔ چینی وزیرِ اعظم نے واضح کر دیا کہ چین باہمی مفاد کی پالیسی پر گامزن ہے۔ عمران خان نے دونوں ملکو ں کے تعلقات کو ایک نیا چہرہ عطا کیا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اس تقریب کے دوران صدر ژی پنگ کے 2013 ءسے اب تک کے ویژن کی جائزہ لے کر تعریف کی۔
چینی حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ ایک ہمہ گیر پراجیکٹ ہے، کئی دہائیوں سے چین کے تیار کردہ مال کو مغربی منڈیوں میں غیر معیاری سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اس تقریب کے دوران صدر ژی پنگ نے اس منصوبے میں 100ارب یو آن کے اضافے کا اعلان کیا تا کہ سرمایہ کار بیلٹ اینڈ روڈ کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ علاوہ ازیں دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم نے امریکہ کی سیاست اور منافع خوری کو بھی چیلنج کیا۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق چلتا رہتا ہے تو یقیناً چین جدید دنیا میں ایک بین الاقوامی طاقت بن کر اُبھرے گا۔
(مضمون نگار جناح رفیع فاﺅنڈیشن کے چیئرمین ہیں)