مغربی کنارے کو ریاست اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان
ولیم گائیکار (1895-1959ء) ایک کینیڈین نیوی آفیسر تھا،بارہ برس کی عمر میں اسے دو انقلابی قسم کے پادریوں سے واسطہ پڑا انہوں نے اسے شیطانی ہتھکنڈوں اور زمین پر شیطان کے پیرو کاروں کی انسانوں کے خلاف سازش کے بارے میں تفصیلات بتائیں اور اسے اپنے انقلابی گروہ میں شامل کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی،لیکن اس12سالہ بچے نے ان کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کر دیا،لیکن ان انقلابی پادریوں نے ”تبلیغ“ کے باعث اس بچے میں شیطان کے بارے میں جاننے اور اس کے پھیلائے ہوئے جال کو بے نقاب کرنے کا ذوق پیدا ہوا۔اس کی آئندہ زندگی تحقیق و جستجو میں گزری۔اس نے رائل کینیڈین نیوی کی ملازمت کے دوران بھی اپنے اس ذوق و شوق کو ماند نہیں پڑنے دیا۔ پھر وہ جوں جوں شیطان بارے تحقیق و آگہی حاصل کرتا گیا اس پر شیطان کی سازش کے اجزاء اور پلان آشکار ہوتے گئے،کیونکہ بچپن میں اسے پادریوں نے اس لائن پر ڈالا تھا اِس لئے اس کا رابطہ بائبل اور کتب ِ مقدسہ سے بھی ہوا۔اسے اپنی تحقیق کا سرا وہیں سے ہاتھ آیا، کہ ”شیطان کی عبادت گاہ“ تک رسائی ہوئی۔ بائبل میں اسے یہودی قرار دیا گیا ہے جو ہیکل سلیمانی میں بیٹھ کر منی چینجر کے طور پر سود کا کاروبار کرتے تھے اصلاً وہ سودی کاروبار کرتے تھے،لیکن کیونکہ بنی اسرائیل کے تمام انبیاء اسے حرام قرار دیتے رہے ہیں اِس لئے یہودیوں نے اس کاروبار کو منی چینجر کا نام دے کر دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا۔ کتاب مقدس میں عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام نے کھلے الفاظ میں یہودیوں کی اس سازش کو بے نقاب کیا ہے اور انہیں واضح طور پر اللہ کی نافرمانی قرار دیا ہے۔اس نے بہت سی کتابیں لکھیں جن کے تراجم یورپی زبانوں میں بھی شائع ہوئے،لیکن اس کی ایک کتاب”Pawn in the Game“ کی اشاعت نے اسے عالمی شہرت دی۔ اس کتاب میں اس نے تحقیق کے بعد یہ ثابت کیا کہ1940-1660ء کے برطانوی انقلاب سے لے کر1789ء کے انقلاب فرانس، نپولین کے زوال، امریکی انقلاب،روس کا سرخ انقلاب، انقلاب سپین، معاہدہ ورسائل، سٹالن کا عروج، جنرل فرانکو اور دوسری جنگ ِ عظیم تک ہونے والے تمام عالمی واقعات میں ”یہودی سازش“ ہی شامل رہی ہے۔ یہودی ایک عالمی حکومت کے قیام کے ذریعے دُنیا پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کے لئے یکسو ہیں۔
ولیم گائیکار نے یہودیوں کے مشہور زمانہ ”پروٹوکولز“ بارے بھی گفتگو کی ہے۔ عیسائی مذہب کی تباہی ہو یا ایک عرصے سے جاری ریاستی نظام کی بربادی،یہودیوں نے اس میں نفاق کا بیج بویا اور اسے برباد کیا۔دُنیا کی جاری جنگ وجدل اسی سازشی یہودی ذہن کا کمال ہے جو ہنوز جاری ہے۔
حاضر دُنیا کو جنگ وجدل کے جہنم میں دھکیلنے کے لئے ”عالمی نظام زر“ اور دُنیا پر چھائے صیہونی ذہن/ساہو کاروں کے بارے میں اب کسے پتہ نہیں ہے۔ ولیم گائیگار نے یہودی سود خوروں کی انسانیت کے خلاف سازش کی تحقیق مسیح ابن ِ مریم علیہ السلام کے دور سے شروع کی اور روتھ چائلڈ کے قائم کردہ عالمی نظام زر/بینکاری تک پہنچا۔کسے معلوم نہیں ہے کہ اس وقت عالمی نظام معیشت مکمل طور پر یہودی ساہو کاروں کے چنگل میں ہے وہ روتھ چائلڈ ہوں یا راک متیلرز، اسلحہ سازی کی صنعت ہو یا ذرائع ابلاغ، فلم سازی کا شعبہ ہو یا تحقیقاتی میدان ہر جگہ یہودی ذہن، سازشی ذہن، شیطانی ذہن کار فرما ہے۔ اشتمالیت، اشراکیت،صیہونیت، سب یہودی شیطانی ذہن کی اختراع ہیں۔ ولیم گائیگار نے اپنی کتاب ”پان ان دی گیم“ میں 1958ء میں لکھ دیا تھا کہ سیاسی صیہونیت کے ذریعے یہودی عالمی غلبے کے لئے کوشاں ہیں۔ان کے شیطانی منصوبوں کی جھلک یہودیوں کی تاریخی شیطانی دستاویز ”پروٹوکولز“ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ولیم گائیکار نے ”پان ان دی گیم“ کے پیش ِ لفظ میں دُنیا کے خلاف صیہونی سازش بارے1958ء میں لکھ دیا تھا۔اس کے مطابق صیہونیت شیطانی غلبے کے ذریعے دُنیا کا آخری معرکہ اصل اسلام کے ساتھ ہو گا۔یاد رہے یہ تصویر ایک عیسائی محقق کی ہے،جو اس نے1958ء میں لکھی تھی۔ صیہونیت کے ہاتھوں ریاست اسرائیل کا قیام سرمایہ دارانہ و اشتراکی نظام کے درمیان نصف صدی تک چپقلش کے بعد سودی نظام زر کا غلبہ اور پھر ریاست اسرائیل کی عالمی بالادستی کے ذریعے شیطانی سازش کی تکمیل کیا اب یہ سب کچھ ہمیں نظر نہیں آ رہا ہے؟
ذرا غور کریں۔ نیتن یاہو کی حال ہی میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت کی دستاویز میں لکھا ہے کہ وہ یکم جولائی سے یہودیہ اور سماریہ کے علاقے ریاست اسرائیل میں ضم کرنے کی کاوشوں کا آغاز کرے گی۔یہودیہ اور سماریہ کے علاقے کیا ہیں؟ ان کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں ہے کہ دو متحارب اسرائیلی پارٹیاں مشترکہ/متحدہ حکومت کے قیام کے وقت ان علاقوں پر قبضے کے لئے معاہدہ کرتی ہیں؟ جی ہاں ریاست اسرائیل کے قیام کے روزِ اول سے ہی صیہونی اس کی سرحدات کو ایک طے شدہ نقشے کے مطابق پھیلانے میں مصروف ہیں۔عرب اسرائیل تنازعہ میں غزہ کی پٹی جو مصر اور اسرائیل کے درمیان واقع ہے،جولان ہائیٹس، جو شام اور اسرائیل کے درمیان واقع ہیں اور مغربی کنارہ، جو اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔
مشرق وسطیٰ میں مصر، عراق اور شام تین عسکری طاقتیں تھیں، مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور اس کے ساتھ معاہدے کے ذریعے بقائے بقاہمی کا اصول اپنا لیا ہے۔ مصر، خطے کا برین بھی ہے یہاں پان عرب ازم کی تحریک اٹھا کر قومیت کے ایسے بیج بوئے گئے ہیں کہ وہاں اب اسلام کی بات کرنا جرم بن چکا ہے۔ اخوان المسلمین کی تحریک کو مصر میں مصری حکمران نے کچلا ہے،بلکہ کچل کر رکھ دیا ہے۔یہ تحریک صیہونی عزائم کے خلاف عربوں کی حد سکندری تھی، لیکن اسے مصر ہی نہیں، بلکہ شام اور عراق میں بھی کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔شام بھی ایک عسکری قوت تھی وہاں 2011ء سے آتش و آہن کا کھیل کھیل کر اس کا بھرکس نکال دیا ہے۔ اسد خاندان نے پہلے یہاں مسلمانوں کا قتل ِ عام کیا۔ اخوان المسلمین کی تحریک پر اس قدر ظلم کئے کہ اللہ کی پناہ اور اس کے بعد اسد کے بیٹے نے آتش و آہن کا ایک نیا کھیل کھیلا جس میں شام مکمل طور پر جھلس چکا ہے۔ ایسا ہی کھیل عراق میں کھیلا گیا۔ صدام حسین پان عرب ازم کا علمبردار بن کر ابھرا۔بعثی تحریک کا پروردہ شیعوں کے خلاف، کردوں کے خلاف اس نے محاذ لگایا، قتل ِ عام کیا۔ ان کی زندگی اجیرن کر دی۔عام طور پر کہا جاتا ہے، مانا بھی جاتا ہے کہ وہ سنی عربوں کا قائد تھا،لیکن یہ تاریخی اعتبار سے درست نہیں ہے وہ ایک بعثی قاتل تھا جس نے مسلمانوں کے قتل ِ عام کے ذریعے شہرت حاصل کی، پہلے اس نے عراقی شیعوں کے خلاف محاذ کھولا جس کے باعث عرب حکمرانوں نے اپنے خزانوں کے منہ اس کی مدد کے لئے کھول دیئے۔سنی عربوں کے چیمپئن کے طور پر شہرت پائی۔پھر عالمی سازش کے تحت ایران پر حملہ آور ہوا اپنی حکمرانی کو موثر اور مضبوط بنانے کے لئے اس نے کردوں پر بھی آتش اور آھن کا جہنم کھولا۔ پھر آخر میں کویتی عربوں پر بھی حملہ کر کے امریکیوں کے عربوں کے خلاف منصوبوں کی تکمیل کی، اس لئے اسے سنی عرب رہنما کہنا درست نہیں ہے۔ آخر کار امریکیوں نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ آج خطے میں کوئی عرب و عجمی ریاست اس قابل نہیں ہے کہ وہ صیہونی عزائم کے راستے میں مزاحم ہو سکے۔
عرب اسرائیل تنازع میں ”مغربی کنارہ بھی ایک اہم حیثیت رکھتا ہے یہ اسرائیل اور اردن کے درمیان علاقہ ہے جہاں یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں یہاں فلسطینی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہ علاقہ مجوزہ فلسطینی ریاست کا اہم حصہ ہے،لیکن اسرائیلی تاریخ کے معروف علاقے جودیا اور سماریا بھی یہاں پر موجود ہیں۔گریٹر اسرائیل کے صیہونی نقشے کے مطابق یہ دونوں علاقے ریاست اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہیں اور یہودی اسے اسرائیل کا حصہ بنا کر چھوڑیں گے۔
1948ء تا1967ء یہ علاقے(مغربی کنارہ) اردن کا حصہ تھے۔1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور پھر بتدریج یہاں یہودی بستیاں بسانا شروع کر دیں۔ صیہونی منصوبے کے مطابق یہاں آبادی کے تناسب یعنی فلسطینی عربوں اور یہودیوں کے درمیان عددی تناسب کو ایسے ہی تبدیل کرنا شروع کر دیا جیسے مودی سرکار5اگست2019ء سے مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کو بسا کر یہاں مسلم اکثریت کو ختم کرنے جا رہی ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ یہودی بستیوں کے باعث علاقے میں آبادی کا تناسب بتدریج یہودیوں کے حق میں ہوتا چلا جا رہا ہے۔عالمی برادری کی مخالفت اور اسرائیل۔عرب معاہدوں کے علی الرغم،صیہونی یہاں یہودیوں کو بساتے چلے جا رہے ہیں اب تو انہوں نے یکم جولائی سے جودیا اور سماریا کو ریاست اسرائیل میں ضم کرنے کے اقدامات اٹھانے کا اعلان بھی کر دیا ہے اور مجھے تاریخ کے طالب علم کے طور پر اس بات پر شرح حاصل ہے کہ عرب، اسرائیل کے اس غیر منصفانہ اقدام کے خلاف معقول بیان بازی بھی کرنے کی پوزیشن نہیں ہیں۔ گزرے 70سالوں کے دوران یہاں صہیونی اور صلیبی طاقتوں نے کسی بھی قسم کی اسلامی یا مسلم تحریک کو پنپنے نہیں دیا، یہاں کی موجودہ نسل مغربی بھی نہیں ہے،بلکہ وہ مشرق، مغرب اور اسلام کا ایک ایسا ملغوبہ ہے کہ وہ کچھ بھی مثبت نتائج دکھانے سے قاصر نظر آتی ہے، جبکہ صیہونی، اسرائیلی ریاست کو اسی طرح عظیم الشان بنانے میں مصروف ہیں، جس طرح نبی داؤد علیہ السلام اور بنی سلیمان علیہ السلام کے دور میں عظیم الشان تھی۔ صہیونی، یہودیوں کے اس عظیم الشان دور کو لوٹانے اور عالمی حکمرانی قائم کرنے کے لئے مکمل طور پر یکسو ہیں۔ ریاست اسرائیل کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عربوں کو کمزور کرنا اور خطے میں کسی اسلامی تحریک کو پنپنے نہ دینا بھی ایسی ہی صیہونی سٹرٹیجی کا حصہ ہے۔ 1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد سے لے کر ہنوز،وہ لوگ اپنے طے شدہ اہداف کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ دنیا کی سپریم طاقت، امریکہ ان کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ عیسائی دنیا ان کے پنجہ اقتدار میں ہے ذرا غور کریں۔ دوسری جنگ عظیم تک عیسائی دنیا میں یہودی راندۂ درگاہ ہی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ایسا کچھ کیا کہ پوری عیسائی دنیا ان کے اشارہ ابرو پر ناچنے لگی۔ آج صیہونی فیصلہ سازی کے عالمی اعصابی مراکز پر چھائے ہوئے ہیں۔