ڈاکٹر طارق عزیزکا سانحہ ارتحال
نامور علمی شخصیت معروف ڈرامہ نگار،شاعر،دانشور،کالم نگار
گزشتہ ہفتے معروف علمی شخصیت ڈرامہ نگار، شاعر، محقق اوردانشور پروفیسر ڈاکٹر طارق عزیز اچانک ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ وہ ایک طویل عرصہ گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور میں تدریسی و انتظامی عہدوں پر فائز رہے اور مجھے ان کے ساتھ ایک عرصہ جو نصف صدی پر محیط ہے ذاتی طور پر رفاقت کا موقع ملا۔ان سے میرے مراسم اس زمانے میں تھے جب میں گورنمنٹ کالج لاہورمیں زیر تعلیم تھا اور ان سے میری ملاقات ان کی رہائش گاہ پر ہوئی جو ریلوے کالونی وکٹوریہ روڈ لاہور میں تھی۔ڈاکٹر طارق عزیز کے والد ملک عبدالعزیز پاکستان ریلوے میں اکاؤنٹس آفیسر کے عہدے پر فائز تھے اور ان کا خاندان ایک متمول اور ثروت مند خاندان تھا، انہوں نے گورنمنٹ کالج باغبانپورہ لاہور سے گرایجویشن کی اور اس دوران وہ سٹوڈنٹ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ بچپن سے ہی انہیں پولیو کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی ساری عمر معذوری میں گزاری لیکن انہوں نے اس معذوری کو ایک روگ نہیں بنایا اپنی جہد مسلسل سے بلندیوں تک پہنچے اور معاشرے میں ایک بلند ترین مقام حاصل کیا۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی اورنٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو کیا اور بعدازاں ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں اردو ٹائپ نگاری اور رسم الخط پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پہلے تو وہ لاہور ڈویژن کے نظامت تعلیم میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور بعدازاں گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور چلے گئے۔
ڈاکٹر طارق عزیز کو شروع ہی سے افسانہ اور ڈرامے لکھنے کا شوق تھا اور وہ جلد ہی پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ ہو گئے۔ان کی کئی ڈرامہ سیریزپی ٹی وی اور دیگر چینل سے بے پناہ مقبولیت کی حامل ہوئیں اس کے ساتھ ہی اخبارات میں کالم نگاری کا سلسلہ بھی شروع کیا لیکن ان کی زیادہ توجہ ٹیلی ویژن ڈراموں کی طرف تھی۔
راقم الحروف کو گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور میں اپنے طویل قیام کے دوران ڈاکٹر طارق عزیز سے مسلسل رابطے کا موقع ملا کیونکہ شعبہ فارسی کا دفتر بھی ان کے دفتر کے بالمقابل تھا۔ ڈاکٹر طارق عزیز صرف ایک رفیق کار ہی نہیں تھے بلکہ ایک مخلص اور وفاشعار دوست بھی تھے۔ ہمیشہ ہم اپنے ذاتی مسائل اور مشکلات کو بھی زیر بحث لاتے۔ڈاکٹر طارق عزیز کا انداز گفتگو خوشگوار اور شگفتہ تھا اور اکثر و بیشتر ہماری گفتگو میں ایسے لمحات بھی آتے تھے جو دونوں دوستوں کے لئے خوشی و مسرت کا باعث بنتے تھے۔ جب گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور کو امریکن چرچ کے حوالے کر دیا گیا تو ڈاکٹر طارق عزیز گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ لاہور چلے گئے جبکہ مجھے گورنمنٹ ڈگری کالج ٹاؤن شپ لاہور بھیجا گیا جہاں سے میں نے اپنا تبادلہ گورنمنٹ کالج آف سائنس میں کروا لیا اور ایک طویل عرصہ ڈاکٹر طارق عزیز کے ساتھ شعبہ اردو و فارسی میں رفاقت کا دوبارہ موقع ملا اس دوران ہمیشہ وہ ناصرف میری بلکہ تمام رفقائے کار کی خوشیوں اور دکھوں میں شریک ہوتے رہے ابھی ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کے گھر پر ملاقات کا موقع ملا تھا عموماً ذاتی دوستوں سے ملاقات کے لئے وہ اپنے ڈرائنگ روم کے بجائے اپنے ذاتی کتب خانے کا انتخاب کرتے تھے۔ جہاں ہزاروں کتابیں سلیقے سے سجی ہوئی ان کے اعلیٰ علمی ذوق کی گواہی دیتی تھیں۔ پُرتکلف چائے کا دور بھی یہیں چلتا تھا ان کے گھر کی ایک اعلیٰ روایت مہمان نواز بھی تھی۔
ڈاکٹر طارق عزیز کچھ عرصہ روزنامہ پاکستان کے ادارتی صفحہ پر کالم بھی لکھتے رہے اور بالعموم ان کا کالم اپنے دوستوں کے خاکوں پر مشتمل ہوتا تھا۔اسی دوران جب مجھے گورنمنٹ ایف سی کالج کے شعبہ ارد وکی طرف سے اجتماعی طور پر فخرالعلماء کے خطاب سے نوازا گیا اور اس سلسلے میں ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی تو ڈاکٹر طارق عزیز نے ایک اور قاضی کے عنوان سے روزنامہ پاکستان میں ایک خوبصورت کالم لکھا جو میرے ساتھ ان کی قلمی محبت کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔ڈاکٹر طارق عزیز سراپا محبت تھے۔ مجیب الرحمن شامی، قدرت اللہ چودھری اور دیگر تمام علمی، ادبی،صحافتی شخصیات اور اپنے اساتذہ کرام سے ہمیشہ ان کا مسلسل تعلق رہا وہ آج کل لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں بطور صدر شعبہ اردو فرائض سرانجام دے رے تھے۔ ان کی اچانک وفات سے ان کے دوستوں کے دل اس زخم سے چور چور ہو گئے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا