کیا کپتان لانگ مارچ میں سنجیدہ تھے

 کیا کپتان لانگ مارچ میں سنجیدہ تھے
 کیا کپتان لانگ مارچ میں سنجیدہ تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

؟ 
 کوئی اگر مجھ سے پوچھے کہ کپتان نے لانگ مارچ کی کال دے کر کیا حاصل کیا ہے تو میں کہوں گا فی الوقت تو نظر آتا ہے عمران خان نے نیٹ پریکٹس کی ہے۔ اپنے کھلاڑیوں کی باؤلنگ، بیٹنگ اور سٹیمنا چیک کیا ہے۔ پہلی بار یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ریاستی اداروں کے سامنے کھلاڑی کتنے صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آج تک تو یہی ہوتا رہا ہے کہ کپتان نے کسی جلسے میں آنے کی کال دی، سب بغیر کسی رکاوٹ کے کشاں کشاں وہاں پہنچ گئے۔ خواتین کی بڑی تعداد بھی جلسوں میں بلا خوف و خطر آتی تھی۔ خوب نعرے لگتے تھے، نغمے سنائے جاتے تھے، کپتان کی دھواں دار تقریر سننے کو ملتی تھی اور سب ہنسی خوشی جلسے کے بعد گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ راستے میں کوئی رکاوٹ ہوتی  نہ کسی گرفتاری کا کھٹکا ہوتا تھا، کوئی آنسو گیس کا شیل چلتا  اور نہ ہی لاٹھی چارج ہوتا تھا۔ کپتان خود کہہ چکے ہیں کہ ہماری جماعت کو ممی ڈیڈی کی جماعت سمجھا جاتا تھا، جس میں سختیاں برداشت کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے اور نہ تجربہ۔ مگر اس دو روزہ مشق کے بعد تحریک انصاف کے کارکن کی جتنی تربیت ہوئی ہے، ان کے صبر و ضبط اور حوصلے کا جتنا امتحان لیا گیا ہے، انہیں ریاستی جبر کی جس صورت حال سے گزرنا پڑا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نیٹ پریکٹس خاصی ہو گئی ہو گی۔ انہیں اندازہ ہوا ہوگا سیاست صرف جلسوں میں بھنگڑے ڈالنے اور جھنڈے لہرانے کا نام ہی نہیں، ماریں کھانے، آنسو گیس کے شیل سے اٹھنے والے دھوئیں کو پینے کا بھی نام ہے۔


یہ سوال تو اب ہوتا رہے گا کہ کپتان نے اس لانگ مارچ کی کال دینے میں جلدی کی یا یہ ان کا درست فیصلہ تھا؟مثلاً اس لانگ مارچ کے لئے کوئی ڈھنگ کی تیاری ہی نہیں کی گئی تھی۔ یہ تو ایسے  ہی تھا کہ آپ سارے ملک سے مہمانوں کو بلا لیں اور انتظام کچھ بھی نہ کریں۔ اب یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ جس وقت عمران خان نے لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا اور پی ٹی آئی کی ساری قیادت کنٹینر سے اتر کر بنی گالا چلی گئی تو خیبرپختونخوا سے کپتان کے ساتھ بیس گھنٹے کا سفر کر کے آنے والے ہزاروں افراد بے یارو مدد گار رہ  گئے ان کے پاس کھانے کو پیسے تھے نہ اشیاء، کئی تو واپسی کا کرایہ تک نہیں رکھتے تھے۔ سوال یہ ہے اگر خان صاحب وہاں دھرنا دینے کا اعلان کرتے تو ان ہزاروں افراد کے لئے وہاں کھانے پینے کا کیا انتظام تھا۔ دیگر انسانی ضرورتوں کے لئے کیا انتظامات کئے گئے تھے۔ یا تو یہ لگتا ہے عمران خان پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا نہیں دینا یا پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت اس بارے میں کچھ سوچا ہی نہیں۔ دھرنا دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ انسان کوئی روبوٹ نہیں کہ جسے جہاں بٹھا دیا جائے بیٹھ جائے۔ اس کی ضرورتیں ہوتی ہیں، جنہیں پورا کئے بنا چارہ نہیں۔ لگتا یہی ہے کپتان کسی خوش فہمی میں مبتلا تھے۔ انہیں یقین تھا کہ وہ لانگ مارچ کی کال دیں گے اور الیکشن کا اعلان نہ ہونے تک اسلام آباد میں بیٹھنے کا کہیں گے تو فیصلہ کرنے والے مجبور ہو جائیں گے۔ ان کی اس حوالے سے بے یقینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 20 مئی کو ملتان کے جلسے میں لانگ مارچ کی تاریخ دینے کا اعلان کیا تھا مگر وہ تاریخ نہ دے سکے، انہوں نے 22مئی کو لانگ مارچ کی صرف دو دن بعد اسلام آباد جانے کی کال دی۔ پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ آپ دو دن کے وقفے سے آپ لانگ مارچ اور غیر معینہ مدت تک دھرنے کی کال دیدیں۔


میرا گمان ہے کہ اس سارے معاملے میں عمران خان یا تو جلد بازی کا شکار ہوئے یا پھر وہ سنجیدہ نہیں تھے۔ جہاں تک سنجیدہ نہ ہونے کا تعلق ہے تو اس کے کئی اشارے ملتے ہیں مثلاً انہوں نے اسلام آباد میں دھرنے کے لےء کوئی انتظامات کئے اور نہ انتظامی کمیٹیاں بنائیں۔ وہ خود پشاور جا کر بیٹھ گئے اور انہوں نے پی ٹی آئی کی ساری قیادت کو بھی وہاں بلا لیا۔ حالانکہ اپنے سیاسی رہنماؤں کی انہیں یہ ڈیوٹی لگانی چاہئے تھی کہ وہ مختلف شہروں سے لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد پہنچیں۔ ملتان کے دو بڑے رہنما شاہ محمود قریشی اور ملک عامر ڈوگر بھی ان کے ساتھ پشاور میں تھے۔ پورے جنوبی پنجاب میں ایسا کوئی رہنما نہیں تھا جو ایک بڑے قافلے کو منظم کر کے اسلام آباد جانے کی کوشش کرتا۔ انفرادی طور پر چند رہنما اسلام آباد پہنچے۔ لاہور کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ یہاں سے کوئی بڑا جلوس یا قافلہ اسلام آباد نہیں جا سکا۔ اعجاز چودھری، محمود الرشید گرفتار ہو گئے اور شفقت محمود گرفتاری کا سن کر گھر چلے گئے۔ اگر کپتان نے اس لانگ مارچ کے لئے اپنا سارا انحصار خیبرپختونخوا پر رکھا ہوا تھا تو انہیں یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ لاکھوں لوگ ملک بھر سے اسلام آباد پہنچیں گے۔ وہ یہ سمجھے تھے کہ ان کی کال پر لوگ نکل آئیں گے اور راستے میں انہیں کوئی نہیں روکے گا۔ حالانکہ ایک سیاستدان کی حیثیت سے انہیں اتنی خبر تو ہونی چاہئے تھی کہ جب ایک بڑے مطالبے کے ساتھ اسلام آباد پر کوئی جماعت چڑھائی کرنا چاہتی ہے تو اس کے راستے میں پھول نہیں بچھائے جاتے۔


اگر یہ مان لیا جائے کہ کپتان نے فقط ایک ریہرسل کی ہے اور اس بات کو چیک کیا ہے کہ ان کی جماعت ریاستی فورس سے ٹکرانے میں کتنی پر عزم ہے تو انہیں مان لینا چاہئے کہ جہاں تک وہ خود ہیں، ایک طاقت نظر آتی ہے، جہاں وہ خود نہیں ان کے اکثر رہنما چوری کھانے والے میاں مٹھو ہیں۔ کئی گرفتاریوں کے خوف سے روپوش ہو گئے اور کئی ایک نے جان بوجھ کے گرفتاری دیدی کہ خرچے اور صعوبت سے بچ سکیں۔ اسلام آباد  کے علاوہ صرف لاہور اور کراچی میں تھوڑا بہت ہلا گلا نظر آیا، وگرنہ باقی جگہوں پر عمومی حالات نارمل ہی رہے۔ کپتان نے جس آسانی کے ساتھ اسلام آباد پہنچتے ہی دھرنا نہ دینے کا اعلان کیا اس سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ ان کا پہلے سے ہی ارادہ نہیں تھا، وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے۔ جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔ اب انہوں نے چھ دن کی مہلت دی ہے اور حکومت سے کہا ہے الیکشن کی تاریخ دے وگرنہ وہ پھر اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے کارکنوں کو یہ تسلی بھی دی ہے کہ اگلی بار جب ہم آئیں گے تو ہمارے راستے میں رکاوٹیں بھی نہیں ہوں گی کیونکہ سپریم کورٹ حکم دے چکی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اب اگلے کئی ماہ تک کپتان کسی لانگ مارچ کی کال دیں۔ یہ دو روزہ مشق ان کے حامیوں کو کافی سبق دے گئی ہے خود کپتان کے لےء بھی یہ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں رہا۔ جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے حکومت تحریک انصاف کو فوج اور پولیس سے لڑانا چاہتی ہے، جو وہ نہیں چاہتے اس لئے دھرنا نہیں دے رہے یہ فوج اور پولیس تو حکومت کسی وقت بھی طلب کر سکتی ہے۔ چھ دن بعد ہو یا چھ ماہ بعد، کپتان کے لئے بہتر یہی ہوگا اپنی جماعت کو تنظیمی حوالے سے منظم کریں۔ یہ کیا کہ جہاں وہ خود ہیں، صرف وہیں تحریک انصاف ہے، تمام رہنما کپتان کے اردگرد موجود نظر آتے ہیں حالانکہ انہیں اپنے اپنے حلقوں میں جا کے پارٹی ورکروں سے ملنا چاہئے جنہیں اس لانگ مارچ کے وقت بھی تنہا چھوڑ دیا گیا۔

مزید :

رائے -کالم -