پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور شہباز سپیڈ
قوم کو پرانا پاکستان مبارک ہو، ملک بھر کی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے مل کر مہنگائی کے نام پر پی ٹی آئی سرکار کے خلاف محاذ کھڑا کیا اور موقع ملنے پر اسے ختم کرکے عنان اقتدار کپتان کے ہاتھ سے چھین کر ایک ایسے شخص کے حوالے کردی جس پر اربوں روپے کرپشن کے کیس میں فرد جرم عائد ہونے والی تھی، یہ شخص ماضی میں شہباز سپیڈ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد مہنگائی کرتے ہوئے بھی انہوں نے وہی سپیڈ دکھائی۔ آتے ہی بجلی، چینی، خوردنی تیل ، آٹے اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا، رات کے وقت سوئی ہوئی قوم پر پٹرول بم گرا دیا ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لٹر 30 روپے کا ریکارڈ اضافہ کردیا۔ یہ تاریخی اضافہ اس لئے نہیں کیا گیا کہ پٹرول دنیا میں ناپید ہورہا ہے یا اس کی پیداوار میں کمی واقع ہوگئی ہے، نہ ہی یہ اضافہ اس لئے کیا گیا کہ دنیا کسی عالمی جنگ کی لپیٹ میں ہے یا بین الاقوامی مارکیٹ میں آئل پرائسز بڑھ گئی ہیں، ہرگز نہیں۔ یہ ہوشربا اضافہ صرف آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔
پرانے پاکستان میں آکر یقیناً عوام کو نیا پاکستان تو یاد آرہا ہوگا۔ وہ کپتان بھی یاد آرہا ہوگا جس نے نامساعد معاشی صورتحال اور انسانی تاریخ کی ہولناک عالمی وباء کورونا سے نہ صرف اپنے ملک کے عوام کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کی بلکہ اس وباء کی وجہ سے آنے والی بھوک سے بھی لوگوں کو محفوظ رکھا۔ ورنہ ہمارے آس پاس کے ممالک میں جو تباہی مچی اس سے کون واقف نہیں۔ اس وقت بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن نے مہنگائی کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی، مظاہرے کئے، لانگ مارچ کئے۔ آج جب اس ملک میں ان سب جماعتوں کی "مکس اچار پارٹی سرکار " ہے تو انہیں تو عوام کو ریلیف دینا چاہئے تھا، اگر ریلیف نہیں دے سکتے تھے تو کم از کم قیمتوں میں استحکام ہی برقرار رکھنے کی کوشش کرلیتے۔
آئی ایم ایف اسی امریکہ کا دم چھلہ ہے اس ادارے میں امریکہ کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا، وہاں سے ہماری حکومت کو ایک "حکم نامہ" جاری ہوا کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردو ورنہ ایک ارب ڈالر قرضے کی اگلی قسط نہیں ملے گی، میرے خیال میں آئی ایم ایف کو " ورنہ" اور اس سے آگے کی بات کہنے کی ضرورت نہیں تھی، موجودہ حکومت بادی النظر میں ان کی جتنی تابعداری کررہی ہے اس کے لئے اشارہ ہی کافی تھا۔
روس سے30 فیصد سستا پٹرول مل جاتا تو آج قیمت میں 30 روپے فی لٹر اضافے کے بجائے کمی ہوتی، بھارت امریکہ کا سٹریٹجک پارٹنر ہے لیکن اس کے باوجود اس نے روس سے سستا تیل خرید کر اپنے عوام کو ریلیف دیا لیکن ہم جب ایسا کرنے جارہے تھے تو امریکہ کو پسند نہیں آیا کیونکہ ہمارے امریکہ کے ساتھ بھارت کی طرح کے برابری کی بنیاد پر تعلقات نہیں ہیں، ہم نے ہمیشہ اس کے لئے ڈالرز کے عوض کام کیا، اپنی خودی بیچ کر غلامی اختیار کی، کبھی فون کال پر ڈھیر ہوئے تو کبھی دھمکی آمیز لہجے پر۔ لیاقت علی خان روس کا دورہ چھوڑ کر امریکہ سے یاری کی پینگیں بڑھانے گئے تھے وہ پینگیں آج تک ہوا میں ہچکولے کھا رہی ہیں۔ کسی حکمران میں جرات نہیں ہوئی کہ جو ملک ہمیں بار بار دھوکہ دیتا ہے اس کی غلامی سے نکلا جائے۔ اگر دوستی رکھنی بھی ہے تو برابری کی بنیاد پر ، غلامی کی بنیاد پر نہیں۔ ایک مرد مجاہد نے جرات کی تو اس کا تختہ الٹ دیاگیا۔ اس نے سازش سے پردہ اٹھایا تو اسے ملنے والی عوامی پذیرائی ساری دنیا نے دیکھ لی۔ بڑی سے بڑی سیاسی جماعت ماہ رمضان میں پاور شو کا سوچ بھی نہیں سکتی، لیکن عمران خان کی آواز پر رمضان المبارک میں بھی کراچی سے خیبر تک ہر شہر میں لوگ نکل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ اس نے جس شہر میں لوگوں کو پکارا، لاکھوں کا مجمع نظر آیا۔
عوام اس بات کو جان چکے ہیں کہ موجودہ حکومت ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گی، اگر اس کے سامنے بند نہ باندھا گیا تو یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ اس کے آگے صرف ایک ہی چیز کا بند باندھا جاسکتا ہے اور وہ ہے فوری نئے الیکشن۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔