مہنگے عمرہ و حج۔چند بنیادی  وجوہات

مہنگے عمرہ و حج۔چند بنیادی  وجوہات
مہنگے عمرہ و حج۔چند بنیادی  وجوہات

  

 پچھلے چند سالوں میں عمرہ و حج کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہو ا ہے جو تشویشناک بھی ہے اور باعث پریشانی بھی۔ اپنے مذہبی مراکز کے ساتھ وابستگی اور وہاں حاضری روحانی بالیدگی اور ایمانی حلاوت کا ذریعہ ہوتی ہے اور یہ بات کرتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ اس متبرک کام کو جتنا مسلمانوں نے کاروباری بنا لیا ہے اس کی مثال  دوسرے مذاہب میں کم ہی ملے گی۔حرمین شریفین کے سفر کا ارادہ کرتے ہی لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اورہر ہر قدم پر مالی ایذا پہنچانے کا سلسلہ اس وقت تک نہیں تھمتا جب تک زائراپنے گھر واپس نہیں آ جاتے۔ ٹریول ایجنٹس کا کردار اس میں بہت بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔بلا شبہ یہ ایک کاروبار ہے اور اس کے لئے سروسز کا اہتمام کرنے پر کمانا بھی ان کا حق ہے، لیکن  ناجائز منافع خوری اور وہ بھی زائرین حرم سے جن کی خدمت باعث برکت بھی ہے اور باعث شرف بھی۔اس بار کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا جن کے رہائشی انتظامات اور ان سے لئے گئے پیسوں میں محتاط اندازے کے مطابق  ایک لاکھ روپے فی کس کمائے گئے جو سرا سر زیادتی اور ظلم ہے جس کی نہ تو کہیں شنوائی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی سد باب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارا پورا معاشرہ کمشن ایجنٹ بنا ہوا ہے جس کی زد میں یہ شعبہ بھی بری طرح آیا ہوا ہے۔آپ ذرا سا سروے کریں تو ہر دوسرا شخص آپ کو کسی نہ کسی کام میں کمشن کی صورت ہی منسلک نظر آئے گا۔اِس بات کو آپ پراپرٹی کے کاروبار کو سامنے رکھتے ہوئے سمجھیں گے تو زیادہ آسانی ہو گی۔ہر طرف پھیلے ہوئے بیشتر ڈیلرز کے پاس نہ تو کوئی اپنا آفس ہے، نہ سٹاف ہے، نہ زمینوں کے معاملات سے جڑے ہوئے سرکاری اداروں سے مسائل کو حل کروانے کا شعوراور تجربہ۔ بالکل اسی طرح عمرہ و حج کے کاروبار میں بھی ہورہا ہے کہ بیشتر لوگ صرف ٹریول ایجنٹ سے ریٹ لے لیتے ہیں اور اس کے بعد گاہکوں کو اپنے اپنے تعلق سے ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

سب سے پہلے حکومت کو ان کمیشن ایجنٹس مافیاز کا سد باب کرنا چاہئے اور لوگوں میں اس شعور کو بیدار کیا جانے چاہئے کہ وہ خود براہ راست کسی ٹریول ایجنٹ کے پاس پہنچیں جس کے پاس کم از کم اس کاروبار کا لائسنس موجود ہو، ایاٹا کی رجسٹریشن موجود ہو  اور وہاں پر پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی۔ احباب کے ایک گروپ سے وہاں ملاقات ہوئی جو اپنے امام صاحب کے ساتھ وہاں آئے ہوئے تھے جو عمرہ و حج کی سروسز اپنے مقتدیوں اور قریب کے لوگوں کو عرصہ دراز سے فراہم کر رہے ہیں جن کے پاس نہ کوئی لائسنس ہے نہ کوئی اور رجسٹریشن اور وہ سالوں سے عقیدت مندوں کو یہاں لاتے چلے جا رہے ہیں اور ان کے عقیدت مندوں سے وصول کئے گئے پیسے اور وہاں پر دی گئی سہولتوں کا موازنہ کیا گیا تو اس میں کم و بیش ایک لاکھ تک کا سیدھا سیدھا فرق تھا۔ اگر تھوڑا سا اور آگے بڑھیں تو پیران عظام کے اپنے مریدین کے بڑے بڑے قافلے  تیار کرنے کی عقیدتوں کے  پیچھے بھی ہوشربا حقیقتیں چھپی ہوئی ملیں گیں۔ زائرین کے جہاز ٹکٹ، وہاں کی سفری سہولت، رہائش کے انتظامات، کھانا پینا، زیارات اور یہاں تک کہ کھجوروں کی خریداری تک ہر کہیں آپ کو کمیشن مافیا کا ہی راج دکھائی دے گا۔ٹریول ایجنٹس کی بات کریں تو پچھلے دنوں ایک وی آئی پی پیکیج میری نظر سے گزرا جس میں ایک فرد کے حج کا خرچ 35 لاکھ لکھا گیا تھا اور ایک اس سے بھی وی آئی پی جس کی قیمت 42لاکھ درج کی گئی تھی،ایسے ٹریول ایجنٹس پر سرکاری اداروں کی ایماندارانہ گرفت اور انہیں ایک جائز منافع تک محدود کرنا بہت ضروری ہے۔

ایک اور اہم وجہ ہماری کرنسی کی بری طرح تنزلی بھی  ہے جس سے ایک چیز جو پاکستانی روپوں میں چالیس روپوں کی پڑتی تھی وہ اب80 روپے کی ہو گئی ہے۔ کرنسی تبدیلی کی دکانوں پر پاکستانی روپے کی قدر کا یہ حال ہے کہ جو ریال پاکستان میں 76 روپے کا ملتا ہے وہاں 90روپے کا دیا جاتا ہے اور اس میں بھی پانچ سو اور ہزار والے نوٹ کو دیکھ کر ہی  ان کی ناگواری دیدنی ہوتی ہے۔وہاں کھڑے ہو کر دیگر ملکوں کی کرنسی کا موازنہ کریں تو اپنا قصور نہ ہونے کے باوجود سر شرم سے جھکنے لگتا ہے۔بنگلہ دیشی روپوں میں یہی ریال28روپوں کا، انڈین کرنسی میں یہ21 روپے کا اور ساتھ ہی پاکستانی کرنسی میں یہ90روپے کا۔تو یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ مہنگائی کی اصل وجہ آخر کیا ہے۔پاکستان پہنچنے پر آپ کی ٹرالی کو عقیدت سے پکڑنے والے اور باہر آنے پر مبارک دیتے ہوئے بھکاری بھی جب آپ سے ریالوں کا ہی تقاضا کریں تو یہیں سے سمجھ جائیں کہ اپنی کرنسی تو اب یہاں ائرپورٹ پر موجود بھکاری بھی ڈیمانڈ نہیں کرتے۔ایک طرف کرنسی کا برا حال اور دوسری طرف قدم قدم لوٹ مار کرنیو الوں کی بھرمار اور درمیان میں  وہ زائرین حرم جن کی نہ تو عقیدت و وارفتگی میں کہیں کمی آ رہی ہے اور نہ ہی ان سب مشکلات کے باوجود ان کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ پچھلی حکومت نے  یہ کہہ کر حجاج کی حکومتی سبسٹڈی ختم کی تھی کہ حج صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے۔سعودی ائرپورٹ سے واپس آتے  ہوئے سفری بیگز کو ائر پورٹ پر پلاسٹک ریپ کروانے کے40 سے 50ریال ادا کرنے پر بھی زائرین کے چہروں کی پریشانی دیکھی جا سکتی ہے۔کمال دیکھئے کہ کسی زمانے کے حکمرانوں نے نہر زبیدہ حجاج کی پیاس کو ختم کرنے کے لئے نکالی تھی کہ اللہ کے گھر آنے والوں کو سہولت میسر آئے اور اب یہ دن آ گئے ہیں کہ اتنا کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد بھی ضرورت کا محض پانچ لیٹر زم زم اور وہ بھی  واپسی پر پیسوں کے عوض۔اللہ اللہ۔ 

مزید :

رائے -کالم -