سیاسی ڈیپارٹمنٹل سٹور

شہر سیاست کے ایک باروق علاقے میں معروف سیاسی ڈیپارٹمنٹل سٹور موجود ہے جہاں سے سیاسی ضروریات کی ہر شے بآسانی خریدی جا سکتی ہے،یہ ڈیپارٹمنٹل سٹور سیلف سروس کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اس لئے یہاں ہر گاہک کو اپنی مطلوبہ شے کی خاطرخود ہی تگ و دو کرنی پڑتی ہے تاہم کسی کی بھی کوشش رائیگاں نہیں جاتی اور اُسے اپنی پسند کی شے مل ہی جاتی ہے۔ سیاست کے رسیا ہر وقت اِس ڈیپارٹمنٹل سٹور کا طواف کرتے نظر آتے ہیں،یہ سٹور چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے وہ سیاست دان جو گھر گھاٹ سے بوجوہ بے نیاز ہیں اپنی راتیں اس کے مختلف شعبوں کا چکر لگاتے گزار دیتے ہیں کہ شاید کوئی کام کی چیز مل جائے اس سٹور کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس کے تمام شعبے آپس میں جڑے ہونے کے باوجود اپنا علیحدہ وجود بھی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے گاہکوں کو اپنی پسند کی شے ڈھونڈنے میں دشواری پیش نہیں آتی یوں شہر سیاست کا مستقل باشندہ ہونے کے ناتے ہمارا اس ڈیپارٹمنٹل سٹور میں جانا ہوتا ہی رہتا ہے تاہم پچھلے دِنوں ایک دوست بیرون ملک سے آئے تو انہوں نے اس ڈیپارٹمنٹل سٹور کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا،اُن کی خواہش کے احترام میں ہم نے صرف اس محیر العقول سٹور کی سیر کرائی بلکہ خود بھی پہلی بار اس کے تمام حصوں کو بغور دیکھنے کی کوشش کی،اس کوشش کے بعد اب ہمیں یوں لگ رہا ہے کہ جیسے ہم کوہ قاف سے ہو آئے ہیں،ہمارے دوست تو اس ڈیپارٹمنٹل سٹور کی سیر کے بعد انسانی معجزوں،مناقشوں اور عجوبوں کے قائل ہو چکے ہیں اور اُس وقت سے اب تک اپنی خطاؤں کی معافی کے لئے گڑ گڑا کے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ اپنے دِل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے آپ کو بھی ان مناظر اور اشیاء کے بارے میں بتائیں جو ہماری گناہ گار آنکھوں نے اس ڈیپارٹمنٹل سٹور میں دیکھی ہیں کیونکہ سنتے ہیں کہنے سننے سے دِل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے جونہی آدمی اس سٹور میں داخل ہوتا ہے ہال کی دیواروں پر لگائے گئے مصنوعی چہرے اُسے گھورنے لگتے ہیں، بعض چہرے تو اس قدر خوفناک بنائے گئے ہیں جنہیں دیکھتے ہی بے دھیانی میں انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں تاہم جلد ہی سٹور میں داخل ہونے والے کو احساس ہو جاتا ہے
کہ یہ چہرے اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ذرا آگے بڑھیں تو دائیں طرف شیشے کا ایک کیبن نظر آتا ہے،اس کیبن کا منظر بھی نئے آدمی کے لئے خاصا دِل دہلا دینے والا ہے۔اس حصے میں دراصل اُن سیاست دانوں کی ممیاں ہوتی ہیں جو سیاسی تاریخ میں بڑا نام رکھتے ہیں،اُن کے ماسک خرید کر آپ اپنے چہرے پر اوڑھ سکتے ہیں اور بعد میں اُن سے اپنے مفادات کا کام لیا جاتا ہے،اس حصے میں شہر بھر کے سیاست دانوں کا ہجوم رہتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی بڑے سیاست دان کی ممی خرید کر اُسے اپنی ذات پر اوڑھ لیں اور دنیا کو بتائیں کہ بھٹو ثانی پیدا ہو گیا ہے یا قائداعظمؒ کا دوسرا جنم اس کے روپ میں سامنے آیا ہے۔اس شعبے میں قدیم و جدید سیاست دانوں کے مصنوعی چہروں کا انبار لگا ہوا ہے،آپ کا کام یہ ہے کہ اپنی پسند کا چہرہ منتخب کر کے کاؤنٹر پر آ جائیں پیسے ادا کریں اور بنفس ِ نفیس بڑا سیاست دان بن کر باہر نکلیں۔اس شعبے کے ساتھ ہی خوشنما اور بدنما بیانات کا شعبہ ہے۔عجیب رنگ ہے اس شعبے کا بہت سی متضاد چیزیں یہاں یکجا نظر آتی ہیں ایک طرف پھولوں جیسے بیانات ہیں تو دوسری طرف خنجر اور تیروں جیسے جسے کٹے بیانات کا سلسلہ ہے، ایسے بیانات بھی یہاں ملتے ہیں جن میں کسی کو محب وطن اور کسی کو غدار کہنے کی سہولت فراہم کی گئی ہوتی ہے، اس حصے میں آپ کو گھٹیا، باسی، بدمزہ اور گھسے پٹے بیانات بھی ملیں گے اور رجائیت بھرے مثبت بیانات بھی،اس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے سہولت کاری کیسے حاصل کی جائے،والا شعبہ بھی ہے،اس میں اکثر بہت رش رہتا ہے اکثر سیاست دان یہاں دوزانو چل کر آتے ہیں تاکہ اس شعبے کا ادب و احترام قائم رہے یہاں سے ہر آدمی کو من کی مراد نہیں ملتی جس پر اقتدار کی دیوی مہربان ہو جائے اُس پر اسٹیبلشمنٹ کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔آج کل اس شعبے میں کچھ زیادہ ہی رش دیکھا رہا ہے جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں تو اس شعبے میں رش بڑھ جاتا ہے،ہر کوئی یہ چاہتا ہے اُس کے سر پر ہما کا نہیں تو کم از کم اسٹیبلشمنٹ کا سایہ تو ہو جائے لیکن سب کو یہاں سے من کی مراد نہیں ملتی، یہاں پہلے آؤ، پہلے پاؤ والا معاملہ نہیں بلکہ سر جھکاؤ مراد پاؤ والا فارمولا اختیار کرنا پڑتا ہے۔
اسی قطار میں کوئی دو شعبے چھوڑ کر ایک ایسا شعبہ ہے جس کی صورت حال دیکھ کر انسان پر دنیا کے بارے میں نت نئے انکشافات ہوتے ہیں۔اس شعبے میں تعصب، تنگ نظری، منافقت، خود غرضی، گروہ بندی، مفاد پرستی اور نفرت کی اصطلاحات فروخت کی جاتی ہیں جنہیں بروئے کار لانے کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ان کے ساتھ بندوق،کلاشنکوف یا ریوالور کا ایک اضافی نسخہ فری فراہم کیا جاتا ہے۔اس شعبے میں فروخت ہونے والی اشیاء سیاست اور انسانیت کے لئے مضر ہیں لیکن اس کے باوجود زیادہ تر خریدار اسی شعبے کے گرد منڈلاتے نظر آتے ہیں جونہی کوئی اصطلاح خرید لیتے ہیں بڑھک مار کر اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہیں۔ میرے دوست جو ڈیپارٹمنٹل سٹور کو حیرت سے دیکھ رہے تھے، اس شعبے کو دیکھ کے تو ٹھٹک کر رہ گئے، میرا بازو پکڑ کر کہنے لگے ”کیا یہ چیزیں یہاں بھی فروخت ہوتی ہیں“۔میں نے پوچھا بھلا یہ چیزیں یہاں کیوں فروخت نہیں ہو سکتیں، کہنے لگے ”بھئی یہ ایک سیاسی ڈیپارٹمنٹل سٹور ہے اورسیاست خدمت کا نام ہے، یہاں ایسی چیزوں کا کیا گزر“۔مَیں نے کہا سیاست اب خدمت کی بجائے ایک کاروبار بن گیا ہے۔اس لئے دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان چیزوں کی مانگ بڑھ گئی ہے یہ سن کر وہ کہنے لگا میرا یہاں دم گھٹ رہا ہے اب چلتے ہیں،مَیں نے اُسے وفاداریاں تبدیل کرنے، پریس کانفرنس کر کے پارٹی چھوڑنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے شعبے دکھانے کی پیشکش کی مگر وہ ایک پل رکنے کو تیار نہ تھا۔
اُس وقت سیاسی ڈیپارٹمنٹل سٹور میں غضب کی چہل پہل تھی، میلے کا سا سماں تھا، طرح طرح کی آوازیں آ رہی تھیں لیکن میرا دوست بے زاری کا اظہار کر رہا تھا مجبوراً میں بھی اُن کے ساتھ صدر دروازے کی طرف چل پڑا، اتنے میں ایک شخص پیچھے سے بھاگتا ہوا آیا اور ہمیں زور سے دھکا دیتے ہوئے آگے نکل گیا۔اُس سے آگے بھی ایک شخص بھاگتا جا رہا تھا۔ پیچھے آنے والا چِلا رہا تھا ”تم بھاگ کر کہاں جاؤ گے تمہارا تو باپ بھی مانے گا کہ میں اِس عہد کا سب سے بُرا سیاستدان ہوں، مَیں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا“۔ اُس کے جاتے ہی میرے دوست نے کپکپائی آواز میں کہا ”بھائی ایک بار مجھے اس مقتل سے باہر لے جاؤ دوبارہ یہاں آنے کی فرمائش کروں تو جو چور کی سزا وہ میری“۔میں نے کہا گھبراؤ نہ صدر دروازہ قریب ہی ہے ابھی ہم صدر دروازے سے باہر نکلے ہی تھے کہ ہم نے دیکھا پولیس کی گاڑیوں نے سٹور کو گھیر رکھا ہے ایک لمحے کے لئے تو ہم گھبرا گئے۔میرے دوست کہنے لگے بھائی آج کل کچھ پتہ نہیں کسے9مئی کے واقعات میں دھر لیا جائے، جلدی نکلنے کی کوشش کرو، میری حسِ صحافت پھڑکی میں نے ڈرتے ڈرتے ایک پولیس والے سے پوچھ لیا،بھائی خیر ہے آج یہاں اتنی پولیس کیوں؟ اُس نے پہلے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھا جب اُسے یقین ہو گیا کہ معصوم پاکستانی ہوں تو کہنے لگا ”ایک سیاست دان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ گرفتاری کے ڈر سے اِس سٹور میں چھپا ہوا ہے اس لئے یہاں چھاپہ مارا ہے“۔یہ سن کر میرے دوست نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا بھائی پہاں سے جلدی نکلو پکڑ دھکڑ کے موقع پر ہماری وڈیو بھی بن گئی تو مارے جائیں گے،اس پر ہم نے پارکنگ کی طرف دوڑ لگائی اور بخیرو عافیت گھر پہنچ گئے۔