خوشی منائیے زندہ بھنور سے لوٹ آئے ۔۔۔

ملے بنا ہی بچھڑنے کے ڈر سے لوٹ آئے
عجیب خوف میں ہم اس کے در سے لوٹ آئے
نہ ایسے روئیے ناکامیٔ محبت پر
خوشی منائیے زندہ بھنور سے لوٹ آئے
یہ سوچتے ہوئے بیٹھے ہیں راہ میں رک کر
ادھر تو گئے ہی نہیں تھے جدھر سے لوٹ آئے
ابھی تو وقت ہے سورج کے ڈوبنے میں تو پھر
یہ کیا ہوا کہ پرندے سفر سے لوٹ آئے
کسی بھی طرح یہ دنیا نہ چھوڑ پائے ہم
کہ جب بھی نکلے تری رہ گزر سے لوٹ آئے
پھر اس نے دیکھا کوئی تارا ٹوٹتے اک رات
پھر ایک روز مسافر سفر سے لوٹ آئے
لگیں گی اور بھی ترکیب اس کو لانے میں
کوئی ضروری ہے سمجھانے بھر سے لوٹ آئے
یہ کس کی دھن تھی جو دیوار و در نہ پہچانا
یہ کس خیال میں اپنے ہی گھر سے لوٹ آئے
مرے گزرنے کی افواہ ہی اڑا دے کوئی
کسے خبر کہ وہ جھوٹی خبر سے لوٹ آئے
کلام : کلدیپ کمار