ماحول تھوڑا پُرسکون ہوا تو پڑھے لکھے لوگوں کی قلموں سے ایسے ایسے فن پارے تخلیق ہوئے کہ ہر طرف ان کی خوشبو پھیل گئی

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:119
اب اس تقریب میں مدعوکیے گئے مولانا صاحب مائیک سنبھال لیتے او ر پھر ان کا بیان چلتا ہی چلا جاتا تھا، یہاں تک کہ لوگ تھک ہار کر ایک ایک کرکے اٹھتے اور نظر بچا کر خاموشی سے اس نورانی محفل سے باہر نکل جاتے۔ اور کچھ سامعین تو وہیں بیٹھے بیٹھے نیند کے مزے لیتے رہتے۔ مسجدقصابان ہمارے گھر سے کوئی 2کلومیٹر دور تھی، تاہم وہاں لگے ہوئے انتہائی طاقتورسپیکروں کی بدولت وہاں کی ساری اذانیں اور نعت خوانوں کی آوازیں گھر تک پہنچ ہی جاتی تھیں، جو ساری رات ہی جاری رہتیں۔
اس کے علاوہ سکولوں اور کالجوں میں بھی سال میں ایک دو بار ایسی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت کے مشہور عالم دین مولانا شفیع اوکاڑوی صاحب ایسی محفلوں میں تشریف لاتے اور اپنی خوبصورت باتوں سے ہمارے دل موہ لیا کرتے تھے۔وہ بچوں کو دین کے بارے میں معلومات ان کی ذہنی سطح کے مطابق دھیمے اور سادہ لہجے میں سمجھاتے تھے۔ان کی ساری باتیں سمجھ بھی آجاتی تھیں اور اثر بھی کرتی تھیں۔
اسی دور کے ایک اور بڑے عالم دین مولانا احتشام الحق تھانوی تھے جو جیکب لائن کی جامع مسجد میں وعظ فرماتے اور امامت کرواتے تھے۔ ان کی آوازد ھیمی مگر دل میں اتر جانے والی تھی۔اہل زبان تھے، شین قاف بڑا درست تھا۔ ان کا شمار ملک کے انتہائی جید علماء میں ہوتا تھا۔جیکب لائن مسجد میں جمعہ کے دن ان کا وعظ سننے کے لیے ان کے مقلدوں اور معتقدوں کی ایک وسیع تعداد امڈ آتی تھی۔
اہل تشیع میں بھی بہت عظیم ذاکر ہوا کرتے تھے، جن کو زبان و بیان پر اتنا عبور حاصل تھا کہ ان کی خوبصورت گفتگو سننے کے لیے ہر کوئی ریڈیو، ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا تھا۔ الفاظ اور ادائیگی لاجواب تھی۔ ان میں سب سے بڑا نام علامہ رشید ترابی کا تھاجو شب عاشور کوذکر کیا کرتے تھے۔یہ ریڈیو اورٹیلی وژن پر براہ راست نشر ہوتا تھا۔ ان کا بیان ختم ہونے کے بعد ناصر جہاں اپنی بہت ہی پُرسوز آواز میں پہلے”گھبرائے گی زینب“ اور پھر ”سلام آخر“ پڑھا کرتے تھے جس کو سن کر ہر ایک کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں۔اس وقت کے اور بڑے ذاکروں میں علامہ حسن ترابی اور علامہ طالب جوہری وغیرہ کا نام بھی عزت اور احترام سے لیا جاتا تھا۔ محرم کے اذکار، سوز خوانی، مرثیے اور درودو سلام بلا تفریق اہل تشیع اور سنی گھرانوں میں سنے جاتے تھے۔خاص طور پر شب عاشورکا بیان اور سلام آخر تو سب کوئی کام چھوڑ کرسنتے اوردیکھتے تھے۔
مشاعرے
ابتدائی دور میں اردو کے بہت محترم اور عظیم شاعر اورادیب بھی ہجرت کے تکلیف دہ مرحلے سے گزر کر کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔شروع کے کچھ سال تو ابتلاء کی زندگی میں گزرے، تب نئے آئے ہوئے مہاجر کراچی میں مستقل قیام پذیر ہونے کی کوششں کر رہے تھے۔اس مرحلے کو بھی ایک دن ختم ہونا ہی تھا، سو ہوا۔ ماحول تھوڑا پُرسکون ہوا تو پڑھے لکھے لوگوں کی قلموں سے ایسے ایسے فن پارے تخلیق ہوئے کہ ہر طرف ان کی خوشبو پھیل گئی۔لکھاریوں نے تو قلم دوات سنبھالی اور اپنے فاضل وقت میں اخباروں اور جریدوں وغیرہ میں لکھنا شروع کر دیا۔کچھ نے اپنے شوق کی خاطر کتابیں بھی تحریر کرنا اور چھپوانا شروع کردیں۔یہ ایک بڑا ہی تکلیف دہ اور مہنگا عمل تھا کیونکہ ان کو دور جدید کی سہولتیں، مثلاً کمپیوٹر کمپوزنگ اورفلم سلائیڈ وغیرہ کی سہولت نہ تھی۔کاتب حضرات ایک کتاب کی کتابت اور تکمیل کو مہینوں لگا دیا کرتے تھے۔پھر کتاب کو شائع کروانا بھی ایک تکلیف دہ اورصبر آزما کام ہوتا تھا کیونکہ اس وقت کے زیادہ تر پبلشرز لاہور میں ہی تھے جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا۔شوق کا کوئی مول نہیں تھا، لوگ ایسے حالات میں بھی انتہائی خوبصورت ادب تخلیق کرتے اور پھیلاتے رہے۔ یہ مختلف ذرائع سے قارئین تک پہنچتا اور وہ عمدہ خیالات، شاندار تحریر اور بہترین لفاظی پڑھ کر بہت محظوظ ہوتے تھے۔یوں رفتہ رفتہ ان مصنفوں اور لکھاریوں کی دھوم پورے پاکستان میں مچ گئی اور ان کا تخلیق کیا ہوا ادب خوشبو کی طرح گلی گلی اور کوچہ کوچہ پھیل گیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)