کوئی تخیل ایسا نہیں جس پر علامہ اقبال نے خامہ فرسائی نہ کی، فارسی کلام میں پیغامِ مشرق ایسا پُر بہار گلدستۂ افکارہے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی
مصنف: جمیل اطہر قاضی
قسط:30
اپنے فارسی کلام میں تو اقبال نے اپنا پیغام پہنچایا مگر اپنے اردو کلام میں بھی اقبال بارہا یہی پشین گوئی کر چکے ہیں۔ یہ مختصر مقالہ اس چیز کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ اس مضمون پر اقبال کا سارا کلام سنایا جاسکے۔ مگر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنی منزل سے بھٹکی ہوئی قوم کو اقبال کے وہ چند اشعار سنادوں جو انہوں نے اس مضمون پر شمع اور شاعر میں زیب ِرقم کئے ہیں۔
مُژدہ اے پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز!
بعد مّدت کے ترے رِندوں کو پھر آیا ہے ہوش
نقد خود داری بہائے بادہ اغیار تھی
پھر دُکاں تیری ہے لبریز صدائے ناؤ نوش
ٹوٹنے کو ہے طلسم راہ سیمایانِ ہند
پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغامِ خروش
درغمِ دیگر بسوز و دیگراں راہم بسوز
گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش
کہ گئے ہیں شاعری جُزویست از پیغمبری
ہاں سنا دے اہلِ محفل کو یہ پیغامِ سروش
ترجمان حقیقت کے کلامِ معجزبیاں کا مقصد اور مرکزی نقطہ اگرچہ وہی ہے جو انہوں نے ان اشعار میں بیان کردیا کہ
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کاررواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہوگا!
سفینہ برگِ گل بنا لے گا قافلہ مُورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
مگر ان کی شاعری کا محور اس قدر وسیع ہے کہ کوئی تخیل ایسا نہیں جس پر علامہ نے خامہ فرسائی نہ کی ہو۔ خصوصاً ان کے فارسی کلام میں پیغامِ مشرق ایسا پُر بہار گلدستہ ئافکارہے۔ جس کی مثال مجھے کہیں نہیں ملتی۔ ندرت، نازک خیالی، بلند پروازی۔ تخیل کی رنگینی اور رنگا رنگ کے مضامین میں سے یہ تصنیف مرصع ہے۔
اقبالؒ کی شاعری کا دوسرا دور
شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی
اقبال کی شاعری کا پہلا دور1893 ء سے 1900 ء تک رہا اس میں وہ زیادہ تر داغ کے رنگ میں غزل گوئی کرتے رہے۔ ان کا دوسرا دور1901 ء سے 1905ء تک رہا۔ اس میں وہ بیشتر فطری اور وطنی نظمیں تحریر کرتے رہے۔ اس سلسلے میں ان کی پہلی نظم ”ہمالہ“ تھی جس میں فطرت نگاری کے ساتھ وطنیت کا رنگ بھی تھا۔ اس نظم میں داغ کی جگہ غالب کا رنگ غالب ہے۔ یہ نظم لاہور کی ادبی مجلس میں 1900 ء میں پڑھی گئی اور’مخزن‘ کے پہلے شمارہ اپریل 1901 ء میں شائع ہوئی۔ اس کا پہلا بند یہ ہے:۔
اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں!
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ پہ کچھ ظاہر نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے دورۂ شام و سَحر کے درمیاں
تیری ہستی پر نہیں بادِ تغیر کا اثر
خندہ زن ہے تیری شوکت گرمئی ایام پر
شروع میں اس نظم کا عنوان ”کوہستانِ ہمالہ“ تھا۔ جب اقبال نے بانگ ِ درا مرتب کی تو اس وقت آپ نے بند کا آخری شعر اس طرح تبدیل کر دیا۔
ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لئے
تو تجلی ہے سراپا چشمِ بینا کے لئے
( جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)