منتشر قوم اور نظام تعلیم
اکثر دانشور حضرات کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم قوم نہیں ہجوم ہیں۔ کوئی بڑا واقعہ یا کوئی بڑا سانحہ ہمیں متحد کردیتا ہے لیکن یہ متحد ہونا انسانی ہمدردی، انسان دوستی اور اُخوت کے دینی رشتے کی خاطر ہوتا ہے جو کہ وقتی ابال کی طرح ماند پڑ جاتا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم 60 سال سے زائد عرصے میں ایک قوم کیوں نہ بن سکے؟ اگر جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم اگرچہ ایک ملک میں رہ رہے ہیں ہمارے مفادات کسی حد تک مشترک ہیں اس لئے ہم ایک قوم نظر آتے ہیں لیکن فکری حوالے سے ہم منتشر ہیں اور یہ تقسیم در تقسیم جاری ہے۔
ان بچوں کا ذکر ہی کیا جو پڑھ نہیں پاتے اور صرف بھیڑ چال میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ ملک میں تقسیم کی بڑی وجہ منقسم نظام تعلیم ہے جو تین طرح کے ذہن پروان چڑھارہا ہے۔ دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ ایک مثالی معاشرہ، مثالی اقدار، مثالی نظام کا تصور لے کر مدرسے سے باہر قدم رکھتے ہیں تو انہیں ایک مختلف دنیا نظر آتی ہے جو مسجد اور مدرسے کے ماحول سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ انہیں یہ معاشرہ پیش امام، نکاح خواں، خطبہ خواں، موذن یا گھروں میں بچوں کو پڑھانے کے لئے قاری صاحب سے زیادہ کردار نہیں دیتا کیونکہ انہوں نے جدید علوم نہیں پڑھے ہوتے۔ بہت سے اس کردار کو قبول کرکے قناعت کی عملی تصویر بن جاتے ہیں جبکہ ایک کثیر تعداد جہادی یا فرقہ پسند تنظیموں کا آلہ کار بن جاتی ہے۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو گورنمنٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرکے نکلتا ہے۔ انہوں نے پڑھا یا یاد کیا ہوتا ہے سمجھا ہوتا ہے لکیر کا فقیر نصاب اور طریقہ تدریس ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلہ گھونٹ دیتا ہے۔
یہ بچے کم پڑھے لکھے اساتذہ کا نہ ہونا، اساتذہ کا سکول نہ آنا اور امتحانوں کی ڈیوٹیوں پر چلے جانا، سکول کی عمارت کا نہ ہونا، جسمانی سزا، ٹیوشن کیلئے جبر جیسے مسائل کی بھٹی سے نکلے ہوئے کندن ہوتے ہیں، جن کے دل اور دماغ پاکستانیت سے روشن ہوتے ہیں۔ معاشرتی اقدار، مذہبی اقدار اور دو قومی نظریہ ان کے دماغوں میں راسخ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے انگریزی زبان ان کے آڑے آتی ہے اور یہ نظام انہیں ایک خاص حد سے آگے پنپنے نہیں دیتا۔
تیسرا گروہ انگریزی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ کا ہوتا ہے جنہیں انگریزی تعلیم اور تخلیقی سوچ کے پنپنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ ان اداروں میں او لیول اور اے لیول کی بین الاقوامی پذیرائی رکھنے والی تعلیم کی بدولت باہر کی جامعات بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں۔ ان طلبہ کو جدید علوم سیکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی لیکن افسوس یہ طلبہ مغربی اقدار کو جانتے ہیں۔ انہیں مغربی کھیل، مغربی لباس، مغربی موسیقی عزیز ہوتی ہے۔
یہ تینوں اذہان جب عملی زندگی میں آتے ہیں تو لامحالہ ٹکراؤ کی سی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور قوم بھانت بھانت کا کنبہ بن جاتی ہے جہاں ہر گروہ اپنے حقوق کیلئے ٹکراتا ہے۔
عزیز قارئین! ہم منتشر قوم ایک نظام تعلیم نہ ہونے کے باعث ہیں۔ روس اگر کمیونسٹ انقلاب کے بعد یہ نعرہ لگاسکتا ہے کہ A Teacher Should be Red and Expert تو ہم کیوں ایک نظریاتی ملک ہوتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ A Teacher Should be Green and Expert اور ہم ہمسایہ ملک بھارت کی طرح ایک تعلیمی نظام ایک نصاب کیوں نہیں متعارف کرواسکتے، کیا ہماری آبادی بھارت سے زائد ہے؟ انہوں نے ایک نظام تعلیم کے ذریعے ہندوستانیت کو فروغ دیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وہاں کا مسلمان اتنے استحصال کا شکار ہونے کے باوجود بھی بھارت ماتا کے خلاف بات نہیں کرتا۔
قصہ مختصر صبح کا بھولا بھی اگر شام کو گھر آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے اگرچہ بہت دیر ہوگئی لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ہجوم کو قوم بنانے کا فیصلہ کریں ورنہ ۔۔۔۔۔۔ انجام سوچ کر ڈر لگتا ہے۔
افسوس کیسے کیسے سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
(کالم نگار بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں اردو کے استاد ہیں)