’ ڈو مور نو مور!

’جناب آپ یقین مانیے ہم بہت اچھے اور پیشہ ور سیلز مین ہیں ، ہم تو مٹی کو ہی سونا بنا کر بیچ رہے ہیں ۔آ پ دیکھیں ہمارے ملک کی داخلی صورتحال اکثر و بیشتر نشیب سے ہی گزر رہی ہوتی ہے کسی ملک کی داخلی صورتحال پر ہی خارجہ پالیسی استوار ہوتی ہے ، آپ ہمیں مستحکم داخلی صورتحال دیں ہم خارجہ پالیسی کے میدان میں آپ کو ستاروں پر کمند ڈال کر دکھائیں گے ‘‘ یہ کلمات ایک دل جلے سینئر سفارتکار نے دفتر خارجہ میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی جانب سے ہمارے اعزاز میں عشائیہ کے بعد غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے اد اکئے ۔
ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے مذکورہ سفارتکار کے دعویٰ کو رد کرنا ممکن نظر نہیں آتا، دارالحکومت میں مسلسل تماشا لگا ہوا ہے ، ایک ایٹمی صلاحیت والے ملک کی حکومت سسک سسک کر ہر دن گزار رہی ہے ، بالخصوص سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی ناہلی کے بعد مسلم لیگ ن نے حکومت بنا بھی لی اور پارلیمنٹ میں اس زیر عتاب جماعت نے تاحال اپنا وجود بھی برقرار رکھا ہو اہے ، تاہم جب سے نوازشریف عہدہ سے ہٹے ہیں ایسا لگتاہے کہ پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کا وجود تو ہے لیکن اس میں روح نظر نہیں آرہی سابق وزیراعظم نوازشریف پر گورننس اور پارلیمانی روایت پر عمل درآمد کے حوالے سے اپوزیشن کے تحفظات بہت نمایاں تھے ، اگرچہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے طرز عمل سے بہت حد تک ان تحفظات کا ازالہ کیا ، وہ نہایت مستعدی سے اپنے فرائض سر انجام دیتے نظر آرہے ہیں ، حتیٰ کہ انہوں نے جنگی جہاز اڑاکر اپنے مضبوط اعصاب کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی، وزیراعظم ہاؤس میں زیر التواء امور تیزی سے نمٹنے لگے ، انکی پارلیمانی اجلاسوں ، قومی اسمبلی اور حتیٰ کہ سینیٹ میں حاضریاں بڑھ گئیں ، کابینہ ، مشترکہ مفادات اور اقتصادی رابطہ کمیٹی سمیت دیگر اہم قومی فورمز کے اجلاس بھی باقاعدگی سے منعقد ہونے لگے لیکن یہ کیا !حکومت کی حکمرانی کی تاثیر تو ہر روز کم ہوتی جارہی ہے !
ایسا لگتاہے کہ حکومت سامری جادوگر کے طلسم کدہ کی پر خطر بھول بھلیوں میں محو سفر ہے جس میں حکومت کو ہر موڑ پر ایک انتہائی خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتاہے ، حکومت دارالحکومت کے طلسم خانہ میں اپنا سفر تو جاری رکھے ہوئے ہے لیکن آنے والے لمحہ میں اس کا اپنی منزل پر پہنچنا مزید مشکوک ہوتا جارہاہے ،راولپنڈی اور اسلام آباد کے اعصابی مرکز فیض آباد میں دھرنا بھی حکومت کیلئے ایک ’’بوبی ٹریپ‘‘ہی تھا ، حکومت ایکشن کرتی یا نہ کرتی دونوں صورتوں میں اس نے سیاسی لحاظ سے مارے ہی جانا تھا ،دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت کو بھی اندازہ تھا کہ دھرنا اس کیلئے ایک ’’بوبی ٹریپ‘‘ہے لیکن اس نے اس سے نمٹنے کیلئے مطلوبہ دلیرانہ سیاسی فیصلہ کی جرأت کا مظاہرہ ہی نہیں کیا جبکہ عدالتی دباؤ پردھرنے کے خلاف ایکشن بھی حکومت کی ناقص حکمت عملی کامظہر تھا ، ایسا لگتا تھا کہ حکومت دھرنے پر ایکشن کے ری ایکشن سے قدرے بوکھلا گئی اور بد حواسی میں الیکٹرانک میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس کو بند کردیاگیا ، جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں اضطراب اور بے یقینی کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا، حکومت کی حکمت عملی اور انٹیلی جنس کی مکمل ناکامی کی بناء پر اپریشن ناکامی سے دوچار ہوا، دلچسپ امر یہ ہے کہ ساز ش کا جادو اس زور سے سر چڑھ کر بول رہاتھا کہ فسادات پر قابو پانے کیلئے فوج کی تعیناتی کاحکومتی نوٹیفیکیشن سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصروں کے ساتھ زیر گردش تھا ، جواباًپاک فوج کی جانب سے حکومتی نوٹی فیکیشن پر اعتراضات پر مبنی خط جیسی خفیہ دستاویز بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی تھی ۔
اس بحران میں پاکستان پیپلزپارٹی جیسی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی مکمل خاموشی بھی معنی خیز ہے ، اس موقع پر مجھے سینیٹ اجلاس میں نئی حلقہ بندیوں کے بل پر پی پی پی کے احتراز کے بعد اس کے ایک انتہائی اہم ترین اور باخبر سینیٹر کے چہرے کی استہزائیہ مسکراہٹ یاد آگئی جب وہ پارلیمنٹ کے گیٹ پر صحافیوں کے تابڑ توڑ تنقیدی سوالات کے جواب میں کہہ رہے تھے کہ پاکستان پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے اور یہ کہ ائندہ عام انتخابات اپنے وقت پر ہوں اس کے ساتھ ساتھ انہو ں نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر دبایا اور میرے کان میں سر گوشی سے کہا کہ حکومت چلتی نظر آتی ہے نہ آئندہ عام انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں ، انکا پر اعتماد لہجہ چغلی کھا رہاتھا کہ وہ اس حوالے سے کھیلے جانے والے کھیل سے واقف ہیں، میں نے جب ان سے استفسار کیا کہ پھر کیا ہوگا، انہوں نے معنی خیز تبصرہ کیا کہ جب خلا پیدا ہوگا تو کوئی نظام اس خلا کو پر کریگا!
دارالحکومت میں پاکستان پیپلزپارٹی کے نہ صرف حکومت بلکہ سیاسی نظام کی بے یقینی پر یقین کامل ہونے کے بہت سے اشارے مل رہے ہیں ، ن لیگ کی حکومت پر اندر سے نقب لگانے کیلئے میر ظفراللہ خان جمالی سرگرم ہیں ، افواہوں کا سمندر ہے دھرنے پر ایکشن کے نتیجہ میں ہر لمحہ بگڑنے والی صورتحال تھمتے نظر نہیں آتی اگر حکومت نے فوری طورپر بڑے سیاسی فیصلے نہ کئے تو معاملہ تھرڈ امپائر کی طرف جانا یقینی ہے ۔ابتر داخلی صورتحال کی یرغمال خارجہ پالیسی کو پھر’’ ڈو مور ‘‘کے مطالبے سننا ہی پڑتے ہیں’’ڈومور نو مور‘‘ کیلئے خارجہ پالیسی کو داخلی صورتحال سے رہائی دلانا ہوگی ۔