آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسع،سپریم کورٹ آج فیصلہ کرے گی
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)) وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی دوبارہ منظوری دے دی گئی، توسیع کی سمری پر وفاقی کابینہ کے تمام ارکان نے دستخط کئے۔ جس کے بعد یہ سمری صدر مملکت کو بھیج دی گئی۔وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں قانونی ٹیم نے وزیراعظم عمران خان کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن کو سپریم کورٹ کی طرف سے معطل کئے جانے کے فیصلے سے متعلق بریفنگ دی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تمام اراکین نے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار چیف ایگزیکٹو کے پاس ہے۔اب نئی سمری کو قانون کے مطابق ٹھیک کیا گیا ہے۔ کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی تین سال کے لیے متفقہ منظوری دی۔بعد ازاں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی تجویز پر صدر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار ہے۔ پہلے بھی صدر نے وزیراعظم کی تجویز پر آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری دی۔شفقت محمود کا کہنا تھا کہ یہ وزیراعظم کا اختیار ہے کہ کیا توسیع دینے کے حالات ہیں یا نہیں؟ خطے کے اس وقت غیر معمولی حالات ہیں۔ بھارت دریاؤں کا پانی روکنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ پہلی بار بھارت نے بالاکوٹ پر حملہ کرنے کی کوشش کی، بھارت کا یہ حملہ غیر معمولی صورتحال ہے۔ سرحدوں پر غیر معمولی حالات کی وجہ سے مدت ملازمت میں توسیع دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ردالفساد میں آرمی چیف جنرل باجوہ کا بہت اہم کردار ہے۔ بھارت بار بار پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور کوئی جھوٹا فلیگ آپریشن کر سکتا ہے۔ اس نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا رکھا ہے۔ ان غیر معمولی حالات کے پیش نظر مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا۔ سابق آرمی چیف جنرل کیانی کی بھی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی تھی۔شفقت محمود کا کہنا تھا کہ کابینہ نے آرمی ریگولیشن کے رول 255 میں ترامیم کرکے مدت ملازمت میں توسیع کا اضافہ کیا ہے اور اس میں ایکسٹینشن کا لفظ شامل کیا گیا ہے۔ عدالت کی معاونت کے لیے وفاقی کابینہ نے رول 255 میں ترامیم کیں۔انہوں نے بتایا کہ آج سے کئی ماہ پہلے وزیراعظم نے آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کی خواہش کا اظہار کر دیا تھا۔ فیصلے میں کوئی ابہام نہیں، فیصلہ قائم ہے۔اس سے پہلے دوپہر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں تمام قواعد پورے نہ ہونے پر وزیر قانون فروغ نسیم پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع کا معاملہ طے ہوچکا تھا تو اس ضمن میں تمام لوازمات پورے کیوں نہیں کیے گئے، وزارت قانون نے غفلت کیوں برتی، تمام قانونی نکات پورے کیوں نہیں ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس شروع ہوا تو کابینہ کے ایجنڈے پر بات کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کرنے کا معاملہ زیر بحث آگیا۔ وزیراعظم عمران خان نے نوٹی فکیشن معطل ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور وہ وزیر قانون فروغ نسیم پر برس پڑے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ، وزارت قانون نے غفلت کیوں برتی اور تمام قانونی نکات پورے کیوں نہیں ہوئے، وزیراعظم کی برہمی پر تمام اراکین نے پہلے خاموشی اختیار کرلی جس کے بعد اجلاس میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ بع ازاں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے عہدے سے مستعفی ہو نے کا اعلان کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے۔وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں یہ اہم خبر میڈیا کو دی اور کہا کہ حکومت کیلئے ان کی خدمات قابل تعریف ہیں جس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ فروغ نسیم وزیر قانون کی حیثیت سے آرمی چیف ایکسٹینشن کیس میں عدالت عالیہ میں پیش نہیں ہو سکتے تھے، انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ردالفساد سے لے کر اب تک کے آپریشنز آرمی چیف کی توسیع کی وجوہات ہیں۔ جنرل باجوہ نے بھارت کو سبق سکھایا اور کرتارپور راہداری کا راستہ دکھایا۔ تمام اتحادیوں نے وزیراعظم کے صوابدیدی اختیار پر حمایت کی ہے۔شیخ رشید نے کہا کہ میڈیا میں فروغ نسیم کے استعفے سے متعلق غلط تاثردیا گیا، انہوں نے رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دیا ہے۔ اور وہ آج سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہونگے
کابینہ م،نظاور
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا اور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آج طلب کر لیا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کوآرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار نہیں، صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں،قانون آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کی اجازت نہیں دیتا، آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں، یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے، کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر رائے نہیں دی۔ منگل کو سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے خلاف درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔عدالت نے کیس واپس لینے کی استدعامسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیس واپس لینے کیلئے ہاتھ سے لکھی درخواست کیساتھ کوئی بیان حلفی نہیں، معلوم نہیں مقدمہ آزادانہ طورپرواپس لیا جا رہا ہے یا نہیں۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائرڈ ہو رہے ہیں، ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن صدر مملکت کی منظوری کے بعد جاری ہوچکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کی منظوری اور نوٹیفکیشن دکھائیں۔ اٹارنی جنرل نے دستاویزات اور وزیراعظم کی صدر کوسفارش عدالت میں پیش کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کو آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیارنہیں، یہ اختیارصدر کا ہے، یہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹرجاری کردیا، پھروزیراعظم کو بتایا گیا توسیع آپ نہیں کر سکتے، توسیع کا نوٹیفکیشن 19 اگست کا ہے، 19 اگست کو نوٹیفکیشن ہوا تو وزیر اعظم نے کیا 21 اگست کو منظوری دی۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری چاہیے تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر مملکت نے کابینہ کی منظوری سے پہلے ہی توسیع کی منظوری دی اور کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیارکہاں ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا اختیاروفاقی کابینہ کا ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ کیا آرمی چیف کی توسیع کیلئے رولزمیں کوئی شق موجود ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت ملازمت میں توسیع کیلئے کوئی مخصوص شق موجود نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں توسیع لکھا گیا جبکہ نوٹیفکیشن میں آرمی چیف کا دوبارہ تقرر کردیا گیا، قواعد میں آرمی چیف کی توسیع یا دوبارہ تقرری کا اختیار نہیں، حکومت صرف ریٹائرمنٹ کو معطل کر سکتی ہے، آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ ابھی ہوئی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف نے 3 ریٹائرڈ افسران کوسزادی، ان کی ریٹائرمنٹ معطل کرکے ان کا ٹرائل کیا گیا اورسزادی گئی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ علاقائی سیکورٹی کی بنیاد پر آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کی گئی، سیکورٹی کا ایشوتو ہر وقت رہتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکورٹی کو تو صرف آرمی چیف نے نہیں بلکہ ساری فوج نے دیکھنا ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ تقرری کرنے والی اتھارٹی توسیع کا اختیار بھی رکھتی ہے، ریٹائرمنٹ کی معطلی تو کچھ دیر کیلئے ہوگی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر کوئی رائے نہیں دی، 25 رکنی کابینہ میں سے صرف 11 نے توسیع کے حق میں رائے دی، 14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی، کیا حکومت نے ارکان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا؟ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنہوں نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کابینہ ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے، کابینہ کے 14 ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پرہاں نہیں کی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئی، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن استعمال کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں، یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے، ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، آرمی چیف کی مدت میں 3 سال کی توسیع کسی رول کے تحت ہوئی، وہ رول آپ نہیں دکھا رہے۔سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے اس کیس کوعوامی اہمیت کا معاملہ قراردیتے ہوئے درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا۔ اٹارنی جنرل نے نوٹیفکیشن معطل نہ کرنے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں ابھی وقت ہے۔عدالت نے آرمی چیف سمیت متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کردی۔د ازاں سپریم کورٹ نے چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کے تقرر کا نوٹیفیکیشن معطل کئے جانے کا تحریر حکم نامہ جاری کر دیا۔ منگل کو فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا ہے،فیصلہ تین صفحات پر مشتمل ہے۔ تحریری حکم نامے میں کہاگیاکہ آئین اور ملٹری رولز میں توسیع کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ حکم نامے میں کہاگیاکہ سیکورٹی خدشات سے آرمی کو بطور ادارہ نمٹنا چاہیے افراد پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔تحریری حکم نامہ میں کہاگیاکہ نوٹیفیکیشن پہلے وزیر اعظم نے خود جاری کر دیا جس کو اس کا اختیار ہی نہیں،دوبارہ نوٹیفیکیشن صدر نے جاری کیا لیکن وہ کابینہ کی منظور کے بغیر جاری کر دیا گیا۔حکم نامہ میں کہاگیاکہ عدالت نے معاملہ کو عوامی مفاد کے تناظر میں آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت قابل سماعت قرار دیا ہے۔ حکم نامہ میں کہاگیاکہ بنیادی انسانی حقوق کے تحت 184/3 میں درخواست گزار کی انفرادی بنیادی حیثیت غیر معینی ہو جاتی ہے۔
نوٹیفکیسن معطل