رفیع بٹ کی شخصیت کی تلاش

رفیع بٹ کی شخصیت کی تلاش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کامیابی کی مسند پر بیٹھا شخص دوسروں کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے، لیکن کامیابی کے آسمان پر جگمگانے تک اسے کن کن مراحل اور دشواریوں سے گزرنا پڑتاہے اس بارے میں ہر کوئی جانکاری رکھتاہے نہ رکھ سکتا ہے۔معروف سماجی اورکاروباری شخصیت امتیاز رفیع بٹ کی کہانی بھی ایسی ہی ہے نومبر 1948ء میں جب یہ صرف دو ماہ کے تھے تو ان کے والدصرف 39سال کی عمر میں ایک فضائی حادثہ میں جامِ شہادت نوش فرما گئے،اُس وقت جب مسلمان برصغیر میں انتہائی معمولی حیثیت کے حامل تھے ان کے والد قابل ِ رشک ترقی یافتہ اور وژنری صنعتکار اور بینکارکے طور پر مشہور تھے، جن کا احترام نا صرف مسلمان کرتے تھے،بلکہ انگریز اور ہندو بھی ان سے متاثر تھے انتہائی قلیل عرصہ میں انہوں نے حیران کن کامیابیاں سمیٹ لی تھیں، لیکن ان کی اچانک ایک فضائی حادثہ میں شہادت نے سارا منظر نامہ بدل دیا۔ ان کے انتہائی وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے مختلف نوعیت کے کاروبار ان کی وفات کے بعد ان جیسی کاروباری بصیرت اور ذہانت نہ رکھنے کے باعث ان کے بھائیوں سے سنبھل نہ پائے اور آپس کے قانونی جھگڑوں کی نذر ہو کر بند ہو گئے۔ کروڑ پتی باپ کے بیٹے نے فنانشل مڈل کلاس فیملی میں پرورش پائی اوپر سے والد کی کمی کا احساس ان کے ذہن پر عجیب اثرات مرتب کرتا رہا، جس نے اس بچے کو خود اعتمادی کی کمی کا شکارکر دیا اور اس کی طبیعت میں شائے نیس بھر دی۔ انہوں نے سینٹ انتھونی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

ان کی والدہ اپنے شوہر کی اچانک ناگہانی شہادت سے عجیب عدم تحفظ کا شکار رہتیں اور خدشات کے پیش ِ نظر سایے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہیں اس عمل نے بھی ان کی خود اعتماد ی کو متاثر کیاوالدہ جو اپنے لخت ِ جگر کو ایک پل اپنی آنکھوں سے اوجھل کرنا گوارا نہ کرتی تھیں ان کی اس حالت کو بھانپ گئیں تو ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے انہیں لارنس کالج گھوڑا گلی کے بورڈنگ سکول میں داخل کروا نے پر آمادہ ہو گئیں۔ ان کی والدہ نے انہیں ابھی تک ان کے والد کی وفات سے لا علم رکھا ہوا تھا تا کہ انہیں یتیمی کے احساسِ محرومی سے محفوظ رکھا جا سکے ان کے متعلق یہی بتایا جاتاکہ وہ کاروبار کے سلسلے میں امریکہ میں مقیم ہیں۔لارنس کالج میں جب انہوں نے دوسرے بچوں کو چھوڑنے کے لئے آنے والے پیرنٹس کو دیکھا تو اس احساسِ محرومی نے انہیں والدہ سے والد کے متعلق دریافت کرنے پر مجبور کیایہ وہ موقع تھا جب انہیں بارہ سال کی عمر میں اپنے والد کی شہادت کا پتہ چلا یہ انکشاف ان کے لئے انتہائی شاکنگ تھا اس انکشاف سے ان دیکھے والد سے ملنے کی موہوم امید بھی دم توڑ گئی۔ انہی منتشر خیالات نے ان کا تعلیمی سرگرمیوں میں جی نہ لگنے دیا پھر بھی یہ ایف سی کالج لاہور تک پہنچ گئے۔ انہوں نے 1974ء میں سیلف ایکسپویر اور ایکسپلوریشن کے لئے امریکہ جانے کا ارادہ کیا، جس کے لئے انہوں نے اپنی گاڑی فروخت کی ریٹرن ٹکٹس اور ویزہ کے بعد بچنے والے ایک ہزار ڈالرز لے کر یہ امریکہ پہنچ گئے جہاں ان کا کوئی جاننے والا تھا نہ کوئی واضح ایجنڈا، ایک ہزار ڈالر ختم ہورہے تھے تو یہ گزر اوقات کے لئے نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے دو تین ہوٹلز میں ویٹر کی جاب ملی، لیکن یہ جاری نہ رہ سکی۔

اس دوران انہوں نے امریکہ کے سسٹم اور یہاں کے طور طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کی انہی دِنوں انہوں نے ایک پاکستانی قالین فروش سے ملاقات کی جس سے انہوں نے کچھ قالین مستعار لئے اور انہیں بیچ کر خوب منافع کمایا یہیں سے ان کی زندگی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔1978ء میں والدہ کے اصرار اور محبت نے انہیں وطن واپسی پر مجبور کیا یہاں آ کر انہوں نے ہال روڈ پر واقع اپنے پلاٹ کو قابضین سے واگزار کروا یا اور یہاں پہلا پلازہ تعمیر کروا کر لاہور میں پلازے بنانے کی روایت کا آغاز کیا۔ پھر یہ بھی اپنے والد کی طرح تیز رفتار ترقی کرتے چلے گئے۔حیران کن حالات و واقعات کا سامنا کر کے اپنی شناخت بنانے والے یہ تھے امتیاز رفیع بٹ۔چالیس سال کی عمر میں جب امتیاز رفیع بٹ نے حیرت انگیز کاروباری کامیابیاں،بہت سا پیسہ اور شہرت کما لی تو انہیں اپنی زندگی میں ایک عجیب سی کمی محسوس ہوئی جو انہیں بے چین رکھنے لگی۔ ایک روز جب انہوں نے اپنے دفتر میں دوستوں کو کھانے پر مدعو کر رکھا تھا تو ان کے دوست معروف صحافی عارف نظامی نے ان کے دفتر میں لگی ان کے والد کی قائد کے ساتھ تصویر کے حوالے سے توجہ دلا کراس بے چینی کو مزید بڑھا دیا یہاں سے امتیاز رفیع بٹ نے اپنے روٹس کے متعلق کھوج کی صبر آزما اور مشکل ترین مہم کا آغاز کیا۔یہ اس کھوج میں لگے تو والد کے متعلق ملنے والی ابتدائی معلومات نے ان کی دلچسپی اس کام میں اس حد تک بڑھا دی کہ ریسرچ کے علاوہ ان کی تمام مصروفیات اور دلچسپیاں ختم ہو کر رہ گئیں اُس وقت جب رفیع گروپ کا طوطی بول رہا تھا یہ کاروبار سے بے نیاز ہو کر صرف رفیع بٹ کے متعلق ریسرچ میں کھوئے رہتے اس دُھن میں مگن رہنے نے انہیں کاروباری طور پر بہت نقصان پہنچایا، لیکن انہوں نے اس بات سے بے پرواہ ہو کر اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

چالیس سال پیشتر وفات پانے والے شہرت سے بے نیاز شخص کے بارے میں کھوج کرنا اور اس کے متعلق ناقابلِ تردید شواہد کو اکٹھا کرنا آسان کام نہیں تھا جس کے لئے انہیں بہت زیادہ محنت ریسرچ اور تگ و دو کرنا پڑی لیکن جب حقائق سامنے آئے تو سولہ سال کی عمر میں ایک چھوٹی سی دکان سے کاروبار کا آغاز کرنے والے وہ رفیع بٹ دریافت ہوئے، جنہوں نے انتالیس سال کی عمر میں شہادت پانے تک نا صرف برصغیر کی سب سے بڑی سرجیکل انسٹرومنٹس کی فیکٹری بنائی، بلکہ 1936ء میں مسلمانوں کا پہلا بینک بھی بنا ڈالا، جنہوں نے تحریکِ پاکستان کے لئے نا صرف اپنے مالی وسائل وقف کر دیے بلکہ اپنے حلقہ ئ احباب میں شامل کاروباری شخصیات کو بھی تحریکِ پاکستان کی مالی معاونت کے لئے راضی کیا۔خود قائداعظم اس نوجوان کی برق رفتار ترقی اور ترقی پسند سوچ سے خاصے متاثر تھے یہی وجہ تھی کہ عمروں کے واضح فرق کے باوجود ان کے درمیان بے تکلفانہ تعلق قائم تھا۔رفیع بٹ کے اس دور کے تمام اہم اور نمایاں لوگوں کے ساتھ ذاتی مراسم تھے قائد ان کی آراء کو اہمیت دیتے تھے یہاں تک کہ کسی سے کوئی تحفہ قبول نہ کرنے والے قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور محترمہ فاطمہ جناح رفیع بٹ کے دیے ہوئے تحائف خوش دلی سے قبول کر لیتے تھے ایک بار تو قائداعظم محمد علی جناح نے ایک خط لکھ کر رفیع بٹ کا انہیں اور محترمہ جناح کو تحائف بھیجنے پر شکریہ ادا کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ ان کی فیکٹری غلام نبی اینڈ سنز میں تشریف لاتے اور ان کے گھر ضیافتوں میں بھی شریک ہوتے۔

انہی رفیع بٹ نے امریکہ میں قائم اپنے دفتر کو مسلم لیگ کے پراپیگنڈہ آفس میں بدل دیا۔رفیع بٹ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اجلاسوں سان فرانسسکو میں ہندوستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ رفیع بٹ فرٹیلائزر اور دیگر صنعتوں میں بھی سرمایہ کاری کی پلاننگ کر چکے تھے۔رفیع بٹ کے دوستوں میں بیرون ملک مقیم کئی نامور شخصیات بھی شامل رہیں۔یہ حقیقتیں جاننے کے لئے امتیاز رفیع بٹ کو ریسرچ کے جن مشکل اور محنت طلب مراحل سے گزرنا پڑا انہوں نے انہیں رفیع بٹ کی دریافت سے قائداعظم شناسی اور قائد شناسی سے پاکستان کی محبت تک پہنچا دیا اسی نے امتیاز رفیع بٹ میں ایک محب ِ وطن پاکستانی کو جنم دیا،جس نے ان کی زندگی سوچ دلچسپیوں ڈائریکشنز اور خواہشات کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔امتیاز رفیع بٹ نے والد کی تلاش کرتے ہوئے تحریکِ پاکستان کے ایک ایسے ہیرو کوتاریخ کی گرد سے نکالا ہے، جو اگر قائد کی زندگی میں وفات پاتا تو قائد اس کی خدمات اور جذبے کو سراہ کر اسے مستند بناتے، لیکن افسوس کہ رفیع بٹ قائداعظم کی وفات کے محض دو ماہ بعد ہی فضائی حادثہ میں جامِ شہادت نوش کر گئے۔

مزید :

رائے -کالم -