مشینوں کی حکومت…………

 مشینوں کی حکومت…………
 مشینوں کی حکومت…………

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 الیکشن 1970ء زور و شور سے جاری تھا۔لوگ دھڑا دھڑ ووٹ ڈال رہے تھے، جوش وخروش کے ساتھ،نوجوان، بڑے،بوڑھے، عورتیں،حتیٰ کہ بوڑھی عورتیں بھی لائنوں میں لگی گھنٹوں انتظار کے بعد ووٹ کاسٹ کر رہی تھیں۔ایک بوڑھی عورت ووٹ کاسٹ کرنے پریذائیڈنگ آفسیر کے پاس آئی، جس نے اُسے انتخابی پرچی اور مہر دی تاکہ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکے، چونکہ ملک میں پہلی مرتبہ اس طرح انتخاب ہو رہے تھے، اس لئے اکثر لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا مکمل اور درست طریقہ کار معلوم نہیں تھا۔اُس بوڑھی عورت نے پریذائیڈنگ آفسیر کے سامنے میز پر پڑی مہر اٹھائی اور انتخابی پرچی پر لگانے لگی۔اس پر آفیسر نے کہا: ”اماں جی یہاں مہر نہیں لگانی“ (مہر لگانے کی مخصوص پردہ دارجگہ)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”مہر اندر لگانی ہے“۔ اس پر وہ بوڑھی عورت مہر لگانے کی جگہ پر گئی اور اند ردیوار پر مہر لگا کر واپس آکر خالی پرچی اور مہر آفیسر کے حوالے کر دی۔بوڑھی عورت ”یہاں نہیں“ سے یہ سمجھی کہ ”انتخابی پرچی پر نہیں“ اور ”اندر جاکر“ سے مطلب یہ لیا کہ ”اندر  دیوار پر“ لگانی ہے۔


خواتین و حضرات ایک اور واقعہ ملاحظہ ہو۔ یہ موجودہ دور کے انتخابات کا واقعہ ہے۔ ایک بوڑھا شخص ووٹ کی پرچی بکس میں ڈالنے کے بعد انتخابی دفتر میں ہی کھڑا رہا۔ آفیسر اور دیگر عملے نے کہا: ”میاں جی آپ باہر کیوں نہیں جاتے“؟اس پر اُس بوڑھے شخص نے معصومیت سے کہا: ”ابھی میری بیوی آئے گی اُس نے بھی ووٹ ڈالنا ہے“۔اس پر الیکشن کے عملے نے کہا:”بابا جی، آپ باہر جائیں، ہم خودہی اُسے سمجھا دیں گے، فکر نہ کریں“۔بابا جی بولے: ”یہ بات نہیں پتر، مَیں اُس سے ملنا بھی چاہتا ہوں“۔پریذائیڈنگ آفسیر  نے کہا: ”تو بابا جی آپ اپنی بیوی کو ساتھ کیوں نہیں لائے“؟بابا جی آہ بھر کر بولے:”پتر اُسے فوت ہوے دس سال ہوگئے ہیں،لیکن وہ ہرالیکشن پر باقاعدہ ووٹ ڈالنے آتی ہے۔کوئی اُس کا ووٹ مرنے کے بعد بھی ڈل جاتا ہے۔مَیں نے سوچا آج اُسے مل ہی جاؤں“۔


خواتین و حضرات قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں دواہم بل پاس ہوئے ہیں۔ان میں سے ایک تو آئندہ آنے والے الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہے،دوسرے سمندر پارپاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیئے جانے سے متعلق ہے۔یہ دونوں بل پاکستان میں عام انتخابات کے حوالے سے انقلابی بل ہیں،جو اس سارے عمل میں جدیدت اور شفافیت کے مظہر ہیں۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے بہت سی بد عنوانیوں، لاقانونیت، خدشات ووٹنگ کے عمل میں نقائص،بے ایمانی، جعلی ووٹنگ،سیاست دانوں کے تحفظات اور الزامات کا خاتمہ ہو سکے گا۔اس بہانے مرحومین کو بھی ووٹ ڈالنے کی زحمت نہیں ہو گی۔ جعلی ووٹ،ایک شخص کے ایک سے زیادہ ووٹ ڈالنا، جعلی ووٹ بنانا یا بنوانا، ووٹ کی پرچی کا چوری ہونا یا ووٹ کی پرچی پرغلط طریقے سے مہر لگاناجیسے عوامل کا بھی از خود خاتمہ ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ عام آدمی سے لے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران تک اداروں  کے اندر ہونے والے انتخابات میں بھی ووٹ کی پرچی پر غلط مہر لگاتے رہے ہیں،جس سے سپیکر کے انتخابات بھی متنازعہ ہوئے اور سارا عمل تہہ وبالا ہو گیا۔


اس طر ح جدید طریقہ ووٹنگ میں نتائج بھی وقت پر آ سکیں گے اور ووٹ ڈالنے کے وقت کے بعد کا دنگا فساد،مار دھاڑ، بیلٹ بکس کی چوری، نتائج میں ہیرا پھیری، تاخیر اور ردوبدل کے خدشات و تحفظات کا بھی ازلہ ہو سکے گا۔ بیلٹ بکس کا پہلے سے بھرا ہونا جیسے واقعات بھی رونما نہیں ہو سکیں گے۔ووٹوں کی دوبارہ گنتی بھی ایک بٹن دبا کر ہو جائے گی۔ کوئی ووٹ جعلی یا ضائع نہیں ہو گا اور کوئی بھی ووٹر ایک سے زیادہ ووٹ نہیں بھگتا سکے گا۔ کوئی کسی سے ووٹ کی پرچی چھین کر اپنی مرضی کے اُمیدوار کے خانے میں مہر نہیں لگاسکے گا۔ووٹ کی پرچی چوری ہونے کے واقعات بھی نہیں ہوں گے۔ ووٹ کی جعلی پرچیاں چھپوانے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ ماضی میں اکثر اُمیدوار ووٹروں کے شاختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور عین وقت پر شناختی کار ڈ کی بوریوں کے منہ کھولے جاتے تھے۔اس نئے نظام کے آجانے سے ماضی میں ہونے والی دھاندلیاں، سرکاری،محکموں، پولیس، سیاست دانوں اور اُن کے حمائتیوں کی مداخلت کا بھی مداوا ہو سکے گا۔اس سارے عمل میں ہماری اپوزیشن کے کیا اعتراضات، خدشات اور تحفظات ہیں؟ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے۔ وہ صرف شور و غوغا مچا کر اس کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔حکومت کی لاتعداد دعوتوں اور درخواستوں پر ایک مرتبہ بھی حکومتی نمائندوں سے اس مسئلے پر نہ بات کی، نہ اپنی سفارشات، رائے، یا مشورہ دیا۔ یہ بات ابھی تک سامنے نہیں آ سکی کہ آخر اُنہیں اس نئے سسٹم سے کیا پریشانی ہے؟اُن کے اس رویے سے صرف ایک بات آشکارہوتی ہے اور ایک ہی نتیجہ نکلا جا سکتا ہے کہ وہ ماضی کی طرح انتخابات میں مبینہ دھاندلی،ووٹروں کا جعلی انداج اور بعد از پولنگ ٹائم،ٹھپے نہیں لگوا سکے گی۔


خواتین وحضرات آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان کے منتخب ہونے، یعنی ”الیکٹ“ہونے کو اپوزیشن ”سلیکٹ“کا نام دیا ہے اور سب سے زیادہ شور ”سلیکٹڈ وزیراعظم“ کا مچایا ہے۔ اس نئے سسٹم کے آنے سے اب اُن کی یہ شکایت دور ہو جائے گی۔دوسرا نیا قانون سمندر پار پاکستانیوں  کو ووٹ ڈالنے کا حق دینا ہے،جو ہر اعتبار سے خوش آئند ہے۔اس پر تبصرے آپ ہر روز اخبارات اور سوشل میڈیا پر دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔ ہم اس سلسلے میں دو توجہ طلب باتوں کا ذکر کر یں گے۔آئندہ آنے والے انتخابات جو 2023ء میں متوقع ہیں،اُس کی انتخابی کمپین میں اپوزیشن جماعتیں،جو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیئے جانے کی اُچھل اُچھل کر مخالفت کر رہی ہیں،وہ کس منہ سے ان پاکستانیوں سے اپنے حق میں ووٹ مانگیں گی۔ دوسری جانب انہی گیارہ اپوزیشن جماعتوں کے حامی افراد کیا ان جماعتوں کو ووٹ دیں گے،جنہوں نے ان کو اس سارے انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لئے ہر سطح پر زور لگایا۔ کیا یہ ووٹر الجھن کا شکار نہیں ہوں گے کہ وہ اُن لوگوں کو کیسے ووٹ دیں،جنہوں نے انہیں ”راندہئ درگاہ“ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 


خواتین و حضرات تصویر کا ایک تیسرا رخ بھی ہے اور وہ حکومت پر عائد ہونے والی حساس ذمہ داریاں ہیں۔ حکومت کو اس سارے نئے نظام کی وضاحت،تشریح، طریقہ کار، متوقع نقصات،خدشات اور تحفظات کا دفاع بھی کرنا ہو گا اور اس کا ٹیکنیکی سطح پر جواب دینا ہوگا کہ ایک عام ووٹر کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے جا سکیں۔مثلاًیہ کہ کیا ایسے دور افتادہ علاقوں میں جہاں بجلی اور نیٹ ورک کے سگنل نہیں آتے، وہاں یہ مشینیں کام کر سکیں گی؟اس سسٹم میں پائی جانے والی ٹیکنیکی خرابیوں کے کیا امکانات ہیں؟ کیا اس کا ڈیٹا چوری کیا جا سکے گا،ہیک ہو سکے گا یا ضائع ہو سکتا ہے؟کیا اس کے استعمال کرنے والے اور استعمال کروانے والے اس سارے عمل سے واقف ہیں اورکیا اس بارے میں اُن کی کسی تربیت اور آگاہی کی ضرورت ہو گی؟ کیا اس نظام میں بھی بدعنوانی کے امکانات ہیں؟ وغیرہ۔ مشین کے اچانک بند ہو جانے،نقص پیدا ہونے یا خراب ہونے کے کیا احتمال ہیں؟


مزید برآں،حکومت کو اس سلسلے میں قبل از وقت آگاہی کی ایک مہم چلانا ہو گی،جو ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی چلے تاکہ مذکورہ بالا خدشات دور ہوں،اس مشین کے درست اور موثر استعمال سے  نتائج حاصل ہو سکیں۔ اس کے لئے ایک ”فل ڈریس ریہرسل“ کی ضرورت ہے۔ایک فرضی انتخابی مرکز تشکیل دے کر عملی طور پر انتخابی مشین کی کارکردگی، انتخابی افسروں اور عملے کی صلاحیت اور ووٹر کی آگہی کا جائزہ لیا جائے۔ ورنہ علامہ اقبالؒ کے بقول یہ نہ کہنا پڑے:
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت 
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

مزید :

رائے -کالم -